درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں
صرف محبت بہتی تھی اور ساتھ یہ اشک روانی میں
کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو
ایک محبت جاسوئی تھی وحشت میں، ویرانی میں
درد کی شدت اور بڑھی تھی شہرِ وفا کی شاموں میں
اور ویرانی بیٹھ گئی تھی ان اکھیوں کے پانی میں
اس ہستی کے اندھیاروں نے بخت کو ایسے گھیرا تھا
اپنی صدا تک اجڑ گئی تھی دل کی نوحہ خوانی میں
ایک سخنور کے لفظوں نے مجھ کو یوں برباد کیا
لطف سماعت کو ملتا ہے اب تو زہر افشانی میں
اس نے انجانی سی باتیں کیں تو پھر یہ علم ہوا
ہم تو دانا سمجھ رہے تھے خود کو بڑی نادانی میں