رت جگے ، آنسو ، دعائے بے اثر ہے اور میں
عشق لا حاصل ہے ، اک اندھا سفر ہے اور میں
چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں
یہ دلِ سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں
اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں وہی
اور خود کو ڈھونڈتی میری نظر ہے اورمیں
گم شدہ منظر میں اب تک ہے بھٹکتی زندگی
اجنبی رستوں کا اِک لمبا سفر ہے اور میں
آس اب بجھنے لگی ، وہ لوٹ کر آئے نہیں
جھیل پر اب بھی وہ اِک تنہا شجر ہے اور میں
کیا کہوں شاہین جس پر تھا بہت ہی اعتبار
وہ زمانے کیلئے اب معتبرہے۔ اور میں ؟