رگوں میں درد کے نشتر اُترنے والے ہیں


رگوں میں درد کے نشتر اُترنے والے ہیں
جو ز خم دل کے ہیں اب یوں سنورنے والے ہیں

ہوا کے دوش پہ جمتے نہیں قدم اپنے
وفا کے نقش بھی ا ب تو بکھرنے والے ہیں

خبر سحر کی نہ ہم کو چراغِ شب کی کوئی
کہ اب تو خواب کے پنچھی گزرنے والے ہیں

جو کہہ رہے تھے محبت میں جاں سے گزریں گے
رہِ وفا میں وہی لوگ ڈرنے والے ہیں

ہمارے خواب ہی جینے کا اک سہارا تھے
اور اب تو خواب بھی لگتا ہے مرنے والے ہیں


Facebook Comments