عشق سے اپنی نسبت کے کچھ خاص حوالے رکھتی ہوں
اسی لئے تو دشتِ وفا کی دھول سنبھالے رکھتی ہوں
میں بھی کتنی سادہ دل ہوں دشمنِ جاں کو دوست کہوں
مفت میں خود کو وہم و گماں میں اکثر ڈالے رکھتی ہوں
تنہا چھوڑ گئے وہ مجھ کو جن بے سمت سی راہوں میں
تپتی دھوپ میں آج وہیں ہوں، پاؤں میں چھالے رکھتی ہوں
جانے کون ستم گر ہے وہ جس کو بھلانے کی دھن میں
خلوتِ جاں میں روگ ہزاروں آج بھی پالے رکھتی ہوں
تیز ہوا میں دیپ بجھے اور تاریکی سی پھیل گئی
ہجر و فراق کی ہر منزل میں اشک اُجالے رکھتی ہوں
مجھ کو شاہیں دریا پار بھی کب جانا ہے لیکن میں
کشتئ جاں کو اب ناحق منجدھار میں ڈالے رکھتی ہوں