مرا دل اس لیے دھڑکا نہیں ہے
پلٹ کر اُس نے جو دیکھا نہیں ہے
الٰہی میں کہاں پر آگئی ہوں
اجالا بھی جہاں اُجلا نہیں ہے
یہ آنسو بھی مسافر ہیں جبھی تو
انہیں میں نے کبھی روکا نہیں ہے
وہی اک خواب ہوتا ہے اثاثہ
ہمارے پاس جو ہوتا نہیں ہے
تو کیا اب ظلم حد سے بڑھ گیا ہے
جو کوئی اب تلک رویا نہیں ہے
پلٹنا بھی نہیں شاہینؔ میں نے
اور آگے بھی کوئی رستہ نہیں ہے