نئے شعری امکانات کی مشعل بردار ۔۔ جاوید احسن


ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ہمارے وسیب کی ایک ہر دلعزیز لیڈی ڈاکٹر، دلآویز شخصیت کی مالک اور اُردو شاعرہ ہیں۔ ان کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان کے معروف قبیلہ کھوسہ کے ایک معزز بلوچ گھرانے سے ہے جو حصول تعلیم، اور روزگار کے بہتر مواقع کے پیش نظر گاؤں سے شہر میں منتقل ہوا۔ پھر یہیں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ نجمہ نے ابتدائی تعلیم مقامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور ایف ایس سی (پری میڈیکل) گورنمنٹ گرلز کالج ڈیرہ غازی خان سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کی۔ بعد ازاں نشتر کالج ملتان میں داخلہ لیا اور 1996ء میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئیں۔ آپ نے نشتر ہسپتال ہی میں دو سال تک گائنی اور میڈیکل کے شعبوں میں ہاؤس جاب کی۔ چنانچہ نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال میں نہ صرف آپ کی زندگی کا ایک سنہرا خواب تعمیر آشنا ہوا بلکہ اس کالج کی خوشگوار یادیں ان کی زندگی کا بہترین اثاثہ بن گئیں۔ شاید ان کی شاعری کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین سے پہلے پہل، میرا تعارف اس وقت ہوا، جب وہ اپنا پہلا مجموعہ کلام ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ 2007ء میں منظرِ عام پر لاچکی تھیں اور مقامی ادبی حلقوں میں بطور شاعرہ متعارف ہورہی تھیں۔ کتاب کا نام اتنا جاذب نظر تھا کہ اُردو کی نامور شاعرہ پروین شاکر کی یاد تازہ ہوتی تھی۔
ابھی اس شعری گلدستے کی پذیرائی جاری تھی کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں اِن کا دوسرا دیدہ زیب شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ 2010ء میں مارکیٹ میں آگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شاعرہ کا نام قومی سطح پر میڈیا اور ادبی منظر نامے میں نمایاں نظر آنے لگا۔
ڈیرہ غازی خان کے مشہور شاعر سید محسن نقوی مرحوم کے بعد ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ دوسرا نام ہے جسے میڈیا اور ادبی حلقوں میں یکساں پذیرائی حاصل ہے۔ ان کی متاثر کن فعال شخصیت، وجاہت، خوش اخلاقی اور پیہم تخلیقی عمل کا کرشمہ ہے کہ وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طے کررہی ہیں۔ بقول شاعرہ
شاہینؔ راہِ شوق میں منزل کہیں نہیں
پیشِ نظر ہے زندگی میدان کی طرح
ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری، آزاداور نثری نظمیں اور جدید شگفتہ غزلیں اس بات کی غمازی ہیں کہ وہ بھرپور تخلیقی توانائی اور خوبصورت مقصد کے ساتھ نئے شعری امکانات کی کہکشاں سجانے اور اپنی باطنی کیفیات کا کیتھارسس کرنے میں مصروف ہیں اور یہی ان کی ذات کا بھید بھی ہے اور تشنہ لب روح کی آواز بھی۔ اس حوالے سے دیکھیے چند اشعارِ آبدار :

وہ بھی دن تھے کہ نگاہوں میں دھنک رہتی تھی
اب تو گھیرے ہوئے رہتی ہے سیہ رات ہمیں
سب کے سب سونپ دئیے حرفِ محبت تجھ کو
اس سے بہتر نظر آئی نہیں سوغات ہمیں

اک مہک سی گذری ہے وہ جہاں سے گزرا ہے
راستہ وہ اب سارا گلستان جیسا ہے


Facebook Comments