کل ایک ہنستی مگر اُداس آنکھوں والی
معصوم لڑکی کو دیکھا
جو اپنے خوابوں کے شہزادے کی
سنہری آنکھوں میں جھانکتی
اُس کی ہر ادا کو اپنی نیل سمندر آنکھوں
میں اتار رہی تھی
وہ کھکھلاتا ہوا
ایک مٹھائی کا ٹکڑا
اس کے منہ تک لے جاتا اور پھر
جب وہ منہ کھولتی
تو ایک بھرپور قہقہے سے اپنے منہ میں لے لیتا
اور لڑکی پھر بھی اُسے دیکھتی رہتی
کچھ حیرت سے کچھ حسرت سے
شاید اُس کی آنکھوں میں کسی آنے والے
ہجر کی ریت چبھ رہی تھی
کسی جدائی کا طوفان اس کی سماعتوں کو
آواز دے رہا تھا
اُسے کسی آدھے بسکٹ
کی کہانی سنا رہا تھا
شاید وقت بے رحم
پھر ایک اور کہانی بنا رہا تھا
یا کسی کہانی کو دُہرا رہا تھا
16 مئی 2009