نثری نظم ۔۔ بِکتے دیکھا جہاں


جب چھوٹے تھے ہم
ماں ہم کو پیسے دیتی اور کہتی تھی
جاؤ فلاں دوکان سے جا کر چیزیں لاؤ
ہم معصومیت سے ماں سے سوال کرتے
ماں کیا پیسوں سے ہر شے مل جاتی ہے
ماں مسکرا دیتی
اور کبھی ایسا بھی ہوتا
ایسے ہی کسی چبھتے سوال پر

جب ماں مسکراتی تو یوں لگتا
جیسے اُس کی داہنی آنکھ کا کونہ بھیگ گیا ہے
تب ذہن الجھتا
ماں کے اس طرح مسکرانے پہ
اور یوں اس کی آنکھ کا کونہ بھیگ جانے پہ
پھر یوں ہوا
وقت نے پیرہن بدلا
اٹکھیلیاں کرتا بچپن
جوبن کے رنگ و روپ بدلتے
ذہن و دل کے دریچے بھی وا کرتا گیا
باہر نکلے تو دیکھا
ہر چیز پیسوں سے مل رہی ہے
وفا بھی بِک رہی ہے
اور مروت کے بھی خریدار ہیں بہت
پھر ہم نے سوچا
محبت تو بے مول ہے
یہ تو نہیں بِک سکتی

مگر ظالم وقت کے پیرہن نے
سوچ کا یہ دریچہ بھی بدل ڈالا
عشق کے بھی دام لگتے ہیں یہاں
شاید خرید و فروخت کے لئے بنا ہے یہ جہاں


Facebook Comments