نظم ۔۔ تُو زندگی ہے مرے مسیحا


کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں
ترے خیالوں سے اب میں نکلوں
محبتوں کے سبھی حوالوں سے اب میں نکلوں
کسی کا مضبوط ہاتھ تھاموں
کسی حسیں رہگزر کو دیکھوں
یہ مسکراتی ہوئی جو دنیا چہار جانب بسی ہوئی ہے
اسے میں دیکھوں
اسے میں چاہوں
تری رفاقت کے جتنے لمحے ہیں بھول جاؤں
کسی حسیں رہگزر پہ جاؤں

زمانے کے رنگ اوڑھ کر میں بھی مسکراؤں
مگر جونہی میں یہ سوچتی ہوں
تو میری آنکھوں میں مدتوں سے بسی ہوئی وہ تمہاری آنکھیں
ملال بنتی ہیں ، اک سراپا سوال بنتی ہیں
ایک ایسا سوال جو لاجواب کر دے
جو درد کو بے حساب کر دے

پھر ایسے لمحوں میں یوں بھی ہوتا ہے
میں نے برسوں سے بس خیالوں میں
اک تمہارا جو ہاتھ تھاما وہ چھوٹتا ہے
وفا سے اپنی حیا کا ناطہ بھی ٹوٹتا ہے
یہ زندگی کا جو زندگی سے ازل کا رشتہ ہے روٹھتا ہے
سو ،اے خیالوں میں بسنے والے
یہ ساتھ تو میری روشنی ہے
یہ ساتھ پھر کون ٹوٹنے دے
تُو زندگی ہے مرے مسیحا
سو زندگی کو کون روٹھنے دے


Facebook Comments