اس عشق کی تو منزل ہی نہیں
اور وفا تو بس اک قصہ ہے
جب دل یہ حقیقت سمجھے گا
تب خاک بدن پر اوڑھیں گے
یہ اندھیارے اپنے ساتھی
جو ہر دم ساتھ نبھاتے ہیں
یہ چاند بہت ہرجائی ہے
ہم اس سے منہ اب موڑیں گے
یہ گلیاں سب سنسان ہوئیں
اور راہیں بھی ویران ہوئیں
ہم ہجر کے آنگن میں آخر
ہنگامہ کیوں آباد کریں
اب خاموشی ہی بہتر ہے
کیوں دل اپنا برباد کریں
جو زعم میں ہم کو چھوڑ گیا
اُس چاند کو ہم اب چھوڑیں گے
یہ چاہت اور یہ وفا جو ہے
سب برسوں پرانی باتیں ہیں
جن لفظوں کا کوئی مول نہیں
اُن لفظوں سے منہ موڑیں گے
ہم گرد ہوئے اُس نگری کی
جس نگری کے وہ باسی ہیں
ہم دھول ہوئے اُس رستے کی
جس رستے پر وہ اب بھی ہیں
لیکن پھر بھی ہم ہجر بھری
وہ راہ یقیناًدیکھیں گے
اس عشق کی تو منزل ہی نہیں
اور وفا تو بس اک قصہ ہے
جب دل یہ حقیقت سمجھے گا
ہر یاد سے منہ ہم موڑیں گے
اور خاک بدن پر اوڑھیں گے