نظم ۔۔ دوام کرنا


یہ بات کہنی ہے تم سے جاناں
جو ہو سکے تو پلٹ کے آنا
جو میرے خوابوں کی کرچیاں ہیں
وہ آ کے چننا
وہ کرچیاں جن میں آج بھی کچھ نشانیاں ہیں
شرارتیں ہیں ، اداسیاں ہیں
گئے دنوں کی کہانیاں ہیں
وہ دن کہ جن میں تمہیں سنا تھا
تمہارے لہجے کی چاشنی جب مری سماعت میں بس گئی تھی
جو آج تک بھی بسی ہوئی ہے

وہ خواب جن کے طفیل آنکھیں
اداسیوں سے سنور گئی ہیں
وہ اک گھڑی جو ملن کی تھی بس
وہ شام بن کر ٹھہر گئی ہے

پلٹ کے آؤ تو ایک چھوٹا سا کام کرنا
اُس ایک ساعت کو ڈھونڈنا ہے
وہ ڈھونڈ کر میرے نام کرنا
جو ہو سکے تو پلٹ کر آنا
کلام کرنا، دوام کرنا


Facebook Comments