اس بدن کے ملبے کے اندر
اک دل کی اجڑی تختی ہے
جس میں سناٹے بولتے ہیں
یادوں کے در جو کھولتے ہیں
کچھ خوابوں کے ذرے ہیں جو
اس لہو میں خلیوں کی صورت
جب رقص کریں تو بولتے ہیں
کچھ بکھرے آس کے ٹکڑے ہیں
جو من میں خوشبو گھولتے ہیں
اک کرب ہی میرے اندر ہے
اک دکھ ہی مرا مقدر ہے
ان خوابوں کے جو لاشے ہیں
وہ من ملبے میں چیختے ہیں
اور اس ملبے کے ڈھیر پہ میں
اب اپنے آپ کو ڈھونڈتی ہوں
یادوں کو اب تک پوجتی ہوں
تم پوچھتے ہو ناں کون ہوں میں
اب کیا بتلاؤں کون ہوں میں ؟