یہ عشق بستی بسانے والو
مری جو مانو تو لوٹ جاؤ
یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے
یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے
جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں
اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے
اے خواب دنیا بسانے والو
وفا کے سپنے سجانے والو
ہے عشق کی بس یہی حقیقت
وفا کی اتنی سی قدرو قیمت
جو بِک گیا اُس کا مول ہو گا
وہی ترازو کا تول ہو گا
وگرنہ سب کچھ ہی جھول ہو گا
محبتوں کے تمام دعوے
تمام قسمیں ، تمام وعدے سراب ہیں بس
اور ان کا حاصل عذاب ہیں بس
یہاں بھٹکنے سے پہلے بس اتنا سوچ لینا
فراق راتوں میں پیاسی یادوں کی تیرگی ہے
یہاں تو آنکھوں سے اشک گرتے ہیں
اشک آنکھوں سے زینہ زینہ اُتر کے اکثر
لبوں تک آتے ہی بس چھلکتے ہیں
اور جو پیاسے ہیں
بھیگی آنکھوں کے ساتھ صحرا میں
پانیوں کو تلاش کرتے ہیں
روز جیتے ہیں ،روز مرتے ہیں زندگی میں
رگوں میں خوں تو نہیں ہے ویرانیاں بسی ہیں
بہت سی حیرانیاں بسی ہیں
ہمارے کشکول میں جو خوابوں کے کھوٹے سکے ہیں
اِیک دوجے سے بس اُلجھتے ہیں
روز روتے ہیں اور بلکتے ہیں
یہ عشق بستی بسانے والو
مری جو مانو تو لوٹ جاؤ
یہاں کی مٹی تو بانجھ ٹھہری
مت ایسی مٹی میں خود کو گھولو
اگر کبھی پیاس بڑھ بھی جائے
تو پانیوں کی طرف نہ دیکھو
عذاب ڈھونڈو، سراب ڈھونڈو
یہ عشق بستی نہیں بسے گی
مری جو مانو تو لوٹ جاؤ