نظم ۔۔ یہ مرا انت ہے


میرے مقتل کو جس دن سجایا گیا
بے بسی کو سہیلی بنایا گیا
ایک شہنائی کی دھن پہ جس روز اک
ماتمی گیت مجھ کو سنایا گیا
ایسے لمحوں میں نے تڑپتے ہوئے
آسماں کو پکارا مدد کے لئے
میں نے دیکھا فلک کے ستارے سبھی
میری حالت پہ بس مسکراتے رہے
چاند ہنستا رہا بس مجھے دیکھ کر

رات گزری تو سورج ابھرنے لگا
مجھ کو سورج سے اتنی سی امید تھی
گر یہ میری مدد کو نہ آیا تو پھر

یہ مری بے بسی پر ہنسے گا نہیں
یہ مگر کیا ہوا ؟
روشنی کی علامت یہ سورج جو ہے
میری تاریکیوں کو بڑھانے لگا
مجھ پہ ہنسنے لگا ، مسکرانے لگا

پھر زمیں کو مدد کے لئے میں نے آواز دی
اُس سے فریاد کی
’’اے زمیں قبر جتنی جگہ چاہئے
ایک حوّا کی بیٹی کی فریاد ہے
بس مدد چاہئے ، ہاں مدد چاہئے ‘‘
مجھ کو معلوم تھا یہ زمیں ماں ہے مجھ کو نہ ٹھکرائے گی
یہ مگر کیا ہوا وہ بھی ہنسنے لگی

میں نے تھک ہار کر پھر پکارا اُسے
وہ جو منسوب تھا
وہ جو محبوب تھا

جس کی خاطر یہ جیون زمانے میں اب اتنا معتوب تھا
یہ مگر کیا ہوا ، وہ بھی ہنسنے لگا
ہر طرف قہقہے ، ہر طرف قہقہے
پھول لاتا تھا میرے لئے جو کبھی
اُس گھڑی اُس کے ہاتھوں میں بھی سنگ تھا
یہ مرا انت ہے
یہ مرا انت تھا


Facebook Comments