وہ ہم سے یہ کیسی وفا کر گئے ہیں
ہمیں خود سے ہی جو جدا کر گئے ہیں
ہر اک زخم دل کا ہرا کر گئے ہیں
وفا کرتے کرتے جفا کر گئے ہیں
عجب چیز تھی چار دن کی رفاقت
ہمیں غم سے بھی آشنا کر گئے ہیں
یہ سب نے کہا تھا کہ دل مت لگانا
مگر ہم تو سب کو خفا کر گئے ہیں
دکھوں سے عبارت نہ تھی زندگانی
مگر سکھ کے موسم قضا کر گئے ہیں
سنبھالا تھا دل نے جو روزِ ازل سے
وہ قرضِ محبت ادا کرگئے ہیں
کمی کوئی چھوڑی نہ اپنی طرف سے
وہ ہر تیر اپنا چلا کر گئے ہیں
بڑی خوبصورت ہے شاہین دنیا
وہ آنکھوں میں سپنے بسا کر گئے ہیں