چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا


چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا
عقل اُس کی تھی طلب ، مجھ کو جنوں درکار تھا

کون تھا جو جل رہا تھا آپ اپنی آگ میں
کون تھا جو ظلمتوں سے بر سرِ پیکار تھا

یوں نہ تھا وارفتگی سے ہم ہی بس چاہا کئے
لطف یہ ہے اُ س کو بھی ہم سے بہت ہی پیار تھا

ایک لمحہ تھا مری مٹھی میں جو آیا نہ تھا
اور اُس کو بھی تو بس لمحہ وہی درکار تھا

ہاتھ پر جس کے لہو تھا بے گناہوں کا یہاں
شہر میں وہ شخص ہی تو صاحبِ دستار تھا

یوں تو دنیا کے لئے ہم نے بہت کچھ پا لیا
بعد اُ س کے تھااگر کچھ بھی تو بس بے کار تھا

ایک چاہت کب تلک لڑتی وہاں شاہین بس
جس طرف بھی دیکھئے اک مصر کا بازار تھا


Facebook Comments