’’ پھول سے بچھڑی خوشبو ‘‘ اور ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘کے بعد سوچا تھا کہ شاید سفر کٹ گیا۔ مگر یہ دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ تنہائیوں، محرومیوں،محبتوں اور جدائیوں کے دکھ ، کہیں انت ہی نہیں ٹھہرتاان کا۔
کبھی گھٹن بن کر دل کو مٹھی میں کر لیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انت ہو گیا اور کبھی دور پرے کھڑے مسکراتے اُسی گھٹن کو کم کرتے ہیں ، روشنی بنتے ہیں اور اپنی ذات کی تلاش پھر سے شروع ہو جاتی ہے ۔اِک چاک مل جاتا ہے جس پر ہم گھومتے ہیں اور اِک محور مل جاتا ہے جو ہمیں اپنے گرد دائرہ در دائرہ گھماتا ہے۔ ہم اپنی جستجو میں ہوتے ہیں مگر بھلا دائرے میں بھی کوئی جستجو مکمل ہو ئی ؟ دائرہ بن کے گھومنا تو بس گھومنا ہے جب رُک گئے تو دائرے میں گھومنے والا ہر ذرہ صرف اپنی جگہ سمٹ کر رُک جائے گا وہ اُس خلا کو پُر نہیں کر سکے گا جو اُسے ذات کے اندر قطار در قطار کھڑے دُکھوں ، گرد بنتی ہواؤں اور پس منظر میں سمٹتی ، جدائیاں بانٹتی رفاقتوں نے عطا کیا۔
ایسی رفاقتیں جو اداسی ، ہجر ، خاموشی ، اضطراب ، امید، یاس ، سُکھ، دُکھ، ہنسی، آنسو ، آرزو، خلش اور کسک بانٹتی ہیں۔ جو دل کی دنیا کو غم کے اندھیروں کے باوجود روشن و منور کرتی ہیں۔ سرِشام یادوں کے دےئے جلائے ، دل کے اندر بہتے لہو کے آنسو ؤں سے اپنی لَو کو جلانے کی صدیوں پرانی روایت پر ڈگر بہ ڈگر چلتی جاتی ہیں اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو یہ رفاقتیں وہی تو ہیں جنہیں اپنی اہمیت کا احساس ہے جنہیں فخر اور غرور ہے اپنے ہونے کا اور دوسروں کے دل میں سب سے اونچی مسند پانے کا۔جنھیں معلوم ہے کہ وہ کوئی مرہم رکھیں یا نہ رکھیں دل کا زخم ناسور بنتا رہے گا اور بن بن کے بگڑے گامگر ازل تا ابد ختم نہیں ہو گا۔انہیں تا حشر اپنی ذات کا زعم ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ایسی لوح تو کہیں کہیں ملتی ہے کہ جس پر کسی انمٹ سیاہی سے جو نقش کندہ کر دیا جائے وہ پھر مٹا نہیں کرتا۔یہ سُکھ ، یہ آرزوئیں ، یہ سانسیں ، یہ حرف ، یہ لفظ ، یہ شاعری غلام ہی تو ہیں بس اُن رفاقتوں کے۔یہ جستجوئے ذات جو شروع تو اپنی ذات سے ہوتی ہے مگر اس کا ہر رُخ ،ہر موڑاُن رفاقتوں تک محدود ہوتا ہے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دُکھ کبھی کبھی تھکا دیتے ہیں کسی سُکھ کو پانے کی تمنا میں دل مچل اُٹھتا ہے ، روح کی تھکن بڑھ جاتی ہے اور روشنیاں بانٹتی اس دنیا میں چاند کی کرنوں سے چند کرنیں لے کر اپنا جیون روشن کرنے کو دل کرتا ہے۔چاند جو منور ہے ، روشن ہے ، جس کی ٹھنڈی چاندنی جب اَوج پر ہو تو ساحل کی لہروں میں طوفان برپا کر دیتی ہے اور جب بے آب و گیاہ صحرا پر پڑتی ہے تو سراب پیدا کرتی ہے مگر یہ دنیا ہے یہاں تو ہم نے کبھی کبھی کہیں کہیں چاند کو بھی اندھیرے بانٹتے دیکھا ہے۔پہاڑ جیسی ہجر کی شاموں سے لے کر بھیانک اندھیری راتوں میں کہیں اِس کی ایک کرن بھی نہیں ملتی کہ زیست کو بتانے کا کوئی حوصلہ ہی مل سکے۔
ایسے میں سُکھ کی یہ خواہش خودبخود اپنی موت مر جاتی ہے ۔پھر ذات کی وہی تنہائی اور دُکھ کا وہی لامحدود صحرا ۔ اور ازل سے لے کر ابد تک اکیلے پن کا وہی سفر ، وہی ریزہ ریزہ خوابوں کی چُبھتی کرچیاں ، محرومیوں کے بوجھ تلے دبی خواہشیں ، دم توڑتی محبتوں کی بے ترتیب ہچکیاں ، پا بُریدہ حسرتوں کی لاشیں ۔۔بھلا اِس اُجاڑ سفر میں کون کسی کا ساتھ دے، کون مجروح جذبوں پر دلاسوں کے ’’ُ پھاہے‘‘ رکھے ۔ کون ساتھ دے سوائے اپنے ہی دُکھ اور تنہائی کے۔اور اسی تنہائی کے بنجر بن میں گئی رُتوں سے یادوں کے چراغ جلا کر، جذبوں کی محفلیں سجانا اور اُن محفلوں میں گلاب اُگانا اور اپنے بے ربط اور بے ترتیب بہہ جانے والے آنسوؤں سے ان گلابوں کو سراب کرنااور ان سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے رنگوں اور روشنیوں سے سیاہی بنانا اور اسے صفحہء قرطاس پر لفظوں کی صورت بکھیرنا اِسی کا نام شاعری ہے۔
مگر کیا شاعری سب بولتی ہے ۔ کیاشاعری وہ سب کہہ سکتی ہے جو کہا جانا چاہئے ؟ اِن سنگلاخ درد کے پہاڑوں سے گزرتی، اپنی ناتواں جاں پر تندو تیز ہواؤں کے طوفان برداشت کرتی کرب کی اِن مسلسل راتوں کی کہانی ، بے یقنی اور مایوسی کی دُھول سے اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی ، یہ رتجگوں کے عذاب اندھی راتوں میں اِک امید سحر باندھے مسلسل جاگتی ،بینائی کھوتی اُن آنکھوں کی کہانی ، کیا یہ شاعری کہہ سکے گی مگر کہاں ؟
یہ لفظ بے شک بہت توقیر والے سہی، جذبوں کی جاگیر سے گُندھے ہوئے ، دل کے سے چراغ جلاتے ۔۔مگر یہ لفظ کبھی حرفوں کی صورت میں بول اُٹھتے ہیں۔اور کبھی کبھی دیوان بن کر بھی صرف ردی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ انہیں اس سے کیا کہ انہیں لکھنے والے کس اذیت اور کرب سے گُزرے ہیں۔
اِک چھوٹی سی بستی کی پگڈنڈیوں پر ننھی ،چہکتی ، کھکھلاتی گڑیا کا ایک لامحدود سفر ، ایک انت نہ ہونے والا امتحان ۔ یہ کیسا امتحان ہے کہ وہ پیدائش سے لے کر اپنے انجام تک سَپلی کے پیپر دیتی رہی اور کبھی پاس نہ ہوئی ۔ سوچتی ہوں کیا وہ ممتحن کو پسند آگئی یا وہ اس قابل ہی نہ تھی کہ پاس ہو سکے اور اپنی منزل پر پہنچے۔ کبھی کبھی یہ سوچ عجیب لگتی ہے کہ کیا کمی تھی ، سُندرتا کے سانچے میں ڈھلی ، عقل و شعور سے معمور ، اِک کُٹیا کے کونے کو اپنے سجدوں سے روشن منور کیے ہوئے، عشق اور آگہی کاحقیقی شعور لئے، چوڑیوں کی کھنک اور حنا کے رنگوں سے ماورا اپنے ہاتھوں میں شفاء کی نرمی لیے ، مسیحائی کا روپ لیے ، ملتزم اور حطیم میں کیے سجدوں سے سجی جبیں لیے ، جذبوں کی رعنائی کے رتھ پہ سوار اُس معصوم لڑکی میں جو اتنا سچ، اتنا شعور پا لینے کے با وجود اپنی آنکھوں کو کسی ہجر کی شام کے دُکھ میں ڈھلتا دیکھ رہی ہے۔ایسا ہجر جس میں وصل کا کوئی ایک پل بھی نہیں۔ یہ کیسی شام ہے جو اُس کی آنکھوں میں ٹھہر گئی ہے ؟یہ کیسا ادراک ہے جس میں کشف ہونے کو وہ موم کی مانند پگھل رہی ہے؟ یہ کیسی منزل ہے جس کے لیے وہ ہاتھ اُٹھا بیٹھی ؟بنا سوچے کہ ایسی دُعائیں محض نوحہ بن جاتی ہیں۔
ایسی دعاؤں سے دھرتی چُپ اور اَمبر ساکت ہو جاتا ہے۔یہ کیسا احساس زیاں ہے اور عظیم اُداسی ہے جو ہر پل اُس کی ذات کے اندر دھمال ڈالے رکھتی ہے ۔ یہ کیسے خیالات کا جھکڑ ہے کہ جس کا شور دماغ کو پاش پاش کیے رکھتا ہے۔یقینی اور بے یقینی کی سرحد پہ کھڑے وہ گزری صدائیں وہ آپس میں گڈ مڈ بیتے لفظ ، وہ عجیب گریز پا لمحے ، وہ بھید بھرے اسرار اُس کے د ل ودماغ کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔اور وہ اِن بیتے لمحوں کو تصویر کرتی ہے مگر سب قاتل لمحوں کو کون تصویر کرے ۔
اس سے بڑھ کرمری وفا کا کوئی نہیں گواہ
غزلیں، نظمیں، سجدے، آنسو، اور اک شب سیاہ
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
نومبر 2012ء drnajmashaheen@yahoo.com
تازہ ترین
- متفرقجشن آزادی مبارک 2024
- متفرقٹوٹے تارے سے ہوئی مات
- متفرقمیری زندگی میں تجھ سے بہت تھک کے جا رہی ہوں
- متفرقزمانے کیا لکھے گا تو اپنی تاریخ میں
- متفرقجشن آزادی مبارک
- متفرقجشن آزادی مبارک
- متفرقڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
- متفرقڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
- فوٹو گیلرینشتر میڈیکل کالج ،،،،کلاس فیلوز کے ساتھ ایک یادگار دن18-12-29
- متفرقکچھ یادیں۔۔۔۔۔کچھ یادگار پروگراموں کی یادگار تصاویر