زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی
زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی
پھر کہاں تُو ہے چلی
دیکھ وہ اک یاد دل میں موجزن ہے آج بھی
آنکھ میں جو خواب تھے اُن کی چبھن ہے آج بھی
جانتی ہے سامنے تیرے ہے اک اندھی گلی
پھر کہاں تُو ہے چلی
آج بھی رُخ پر ترے کتنے ہی گہرے گھاؤ ہیں
آگ میں دہکے ہوئے اور کچھ سنہرے گھاؤ ہیں
جو دکھوں کی رات تھی وہ بھی نہیں اب تک ٹلی
پھر کہاں تُوہے چلی
جب وفاؤں کے صلے میں بس وفائیں ہی ملِیں
اس زمانے میں تجھے پل پل سزائیں ہی ملِیں
اور گزرتی جا رہی ہے یہ بری ہے یا بھلی
پھر کہاں تُو ہے چلی
لوگ آئینِ محبت کو نہیں اب جانتے
اور وفاکی منزلوں کو بھی نہیں پہچانتے
کیا ملے گا شمع کی صورت بھی گر تنہا جلی
پھر کہاں تُو ہے چلی
زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی
زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی