اجنبی شہر کی اجنبی شام میں


اجنبی شہر کی اجنبی شام میں
زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں

شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو
زندگی سے گئی زندگی شام میں

درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی
عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں

عشق پر آفریں جو سلامت رہا
اس بکھرتی ہوئی سرمئی شام میں

میری پلکوں کی چلمن پر جو خواب تھے
وہ تو سب جل گئے اُس بجھی شام میں

ہر طرف اشک اور سسکیاں ہجر کی
درد ہی درد ہے ہر گھڑی شام میں

آخری بار آیا تھا ملنے کوئی
ہجر مجھ کو ملا وصل کی شام میں

رات شاہینؔ آنکھوں میں کٹنے لگی
اس طرح گم ہوئی روشنی شام میں


Facebook Comments