درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں


522561_3717054011233_381521361_nدرد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں
صرف محبت بہتی تھی اور ساتھ یہ اشک روانی میں

کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو
ایک محبت جاسوئی تھی وحشت میں، ویرانی میں

درد کی شدت اور بڑھی تھی شہرِ وفا کی شاموں میں
اور ویرانی بیٹھ گئی تھی ان اکھیوں کے پانی میں

اس ہستی کے اندھیاروں نے بخت کو ایسے گھیرا تھا
اپنی صدا تک اجڑ گئی تھی دل کی نوحہ خوانی میں

ایک سخنور کے لفظوں نے مجھ کو یوں برباد کیا
لطف سماعت کو ملتا ہے اب تو زہر افشانی میں

اس نے انجانی سی باتیں کیں تو پھر یہ علم ہوا
ہم تو دانا سمجھ رہے تھے خود کو بڑی نادانی میں


Facebook Comments