لا حاصلی کے دکھ اور سر شاری ۔۔ رضی الدین رضی


جس معاشرے میں غربت اور بے روزگاری اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگ موت میں زندگی تلاش کرنے لگیں، جس معاشرے میں ہر طرف ظلم کا راج ہو ، جہاں خودکش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ فیشن کی صورت اختیار کر گئی ہو۔۔جہاں لہومیں لتھڑے لوگ اور ان کے بکھرے ہوئے اعضاذہنوں کو ماؤف اور اعصاب کو شل کر رہے ہوں، جہاں منصف مجرم دکھائی دینے لگیں ،حکمران غلام نظر آئیں اور جس معاشرے میں بدصورتیوں کو حسن قرار دیا جانے لگے اس معاشرے میں سانس لینے والی شاعرہ اگر اپنی آنکھیں بند رکھنے کا اعلان کرتی ہے تو ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ یہ معاشرہ آخر کس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ یہاں وہ آنکھیں جنہیں نعمت قرار دیا جاتا تھا سوچنے سمجھنے اور فکر کرنے والوں کے لئے بوجھ بنتی جا رہی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آنکھوں کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت قرار دیا جاتا ہے۔ ہم ان آنکھوں سے خوبصورت مناظر دیکھتے ہیں ، اپنے پیاروں کو تکتے ہیں اور ان کے جدا ہو جانے کے بعد انھی آنکھوں سے ان کے ہجر میں اشک بھی بہاتے ہیں ۔لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ یہی آنکھیں ہمیں وہ بہت سے مناظر بھی دکھاتی ہیں جنہیں ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔کسی نے بصارت سے محرومی پر ایک بار کہا تھا اور درست کہا تھا کہ بصارت سے محرومی نے مجھے بہت سی خوبصورتیوں سے محروم تو کر دیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجھے اس کے نتیجے میں کئی بد صورتیوں سے بھی نجات مل گئی۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی کتاب ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ میرے سامنے آئی تو میں بہت دیر تک یہی سوچتا رہا کہ انہوں نے اپنے شعری مجموعے کا یہ چونکا دینے والا نام کیوں رکھا ہے ؟ اس کی فوری توجیہ دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔ایک تو وہی کہ جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین اپنے گرد و پیش کے بد نما مناظر کو نہیں دیکھنا چاہتیں۔وہ اپنی آنکھوں کے رستے مزید دکھوں کو اپنے دل تک نہیں پہنچانا چاہتیں۔وہ اپنی آنکھوں کو ان دکھوں سے مزید اشک بار نہیں کرنا چاہتیں اور اسی لئے آنکھیں بند رکھنے کا اعلان کرتی ہیں۔یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا وہ ان بد صورتیوں سے فرار چاہتی ہیں ؟کیا وہ دکھوں سے فرار چاہتی ہیں اور کیا وہ حوصلہ ہار چکی ہیں ؟ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایسے بہت سے بد نما مناظر وہاں بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن وہاں وہ ان مناظر کو دیکھ کر آنکھیں بند نہیں کرتیں بلکہ ان منظروں کو اپنی شاعری کا حصہ بناتی ہیں
ہے عجب رُت یہ میرے گلشن میں
لے کے دامن میں جو لہو آئی
اور پھر یہ اشعار دیکھئے
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے
تم ستم گر ہو نہ گھبراؤ مری حالت پر
زخم سہنے کا ابھی مجھ میں ہنر باقی ہے
زخم سہنے کا ہنر اگر ابھی ان کے پاس موجود ہے تو پھر انہوں نے آنکھیں بند رکھنے کا اعلان کیوں کیا ؟اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس عنوان کو ایک اور زاویے سے دیکھنا اور ان کی شاعری کو سمجھنا ہو گا۔
دوسرا زاویہ یہ ہے کہ آنکھیں صرف بد صورتیوں سے نظریں چرانے کیلئے بند نہیں کی جاتیں بسا اوقات ہمیں خوبصورتیوں کی تلاش بھی آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔وہ خوبصورتیاں جو ہمارے گرد و پیش میں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن ہمارے دل کے نہاں خانے میں ضرور ہوتی ہیں۔ہم ان خوبصورتیوں کو مجسم کرنے کیلئے آنکھیں بند کرتے ہیں اور وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ہمیں میسر نہیں ہوتا۔کوئی ناممکن رفاقت ، کوئی مکالمہ اور کوئی وصال۔۔ یہ سب بسا اوقات بلکہ اکثر اوقات کھلی آنکھوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔اس کیلئے آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں اور جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں تو چشمِ تصور وا ہو جاتی ہے۔پھر ہم اپنی مرضی کی دنیا میں چلے جاتے ہیں ۔ایک ایسی دنیا میں جو ناممکن نہیں ہوتی، ایک ایسی دنیا جسے خوابوں کی دنیا بھی کہا جاتا ہے اور ایک ایسی دنیا جو شاعر اپنی قوتِ متخیلہ کے زور سے آباد کرتا ہے۔خوابوں کی دنیا میں رہنا ہمیں اس لئے بھی اچھا لگتا ہے کہ خواب ہمیں جینے کا حوصلہ دیتے ۔ہمیں ہماری محرومیوں سے نجات دلاتے ہیں۔وہ سب کچھ جو ہم حقیقی زندگی میں حاصل نہیں کر پاتے خوابوں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔روز ٹوٹتے ہیں ۔روز بکھرتے ہیں اور نئے حوصلے کے ساتھ نئے خواب کی خواہش میں آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ہے۔ان کی پہلی کتاب ’’پھول سے بچھڑ ی خوشبو‘‘2007ء میں منظرِ عام پر آئی تھی۔یہ دونوں کتابیں ان لمحوں کی کہانی بیان کرتی ہیں جن کے بارے میں نجمہ شاہین خود لکھتی ہیں کہ’’ وہ لمحے جینے دیتے ہیں نہ مرنے دیتے ہیں مگر وہی لمحے اثاثہ ہوتے ہیں ‘‘۔یہ لاحاصل عشق کی کہانی ہے اور لاحاصلی ہی عشق کا حاصل ہوتی ہے کہ عشق اگر حاصل ہو جائے تو وہ عشق نہیں رہتا ہوس بن جاتا۔عشق میں رائیگانی کی دولت کمانے والے اسی سرشاری میں جیون بِتاتے ہیں کہ انہوں نے عشق کو عشق ہی رکھا ہوس نہیں بننے دیا۔اس سرشاری میں رہنے والوں کو اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے کہ یہ سرشاری ان کی روح کو گھائل کرتی ہے اور ان کا وجود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ۔رائیگانی کی یہ دولت آنکھوں میں رتجگوں کو امر کرتی ہے، خوبصورت چہروں پر اداسی رقم کرتی ہے،دلوں کو دکھوں سے آباد کرتی ہے اورپھر ایسے لوگوں کو زمانے میں محترم بنا دیتی ہے۔
یہ عشق کی لاحاصلی کا ہی اعجاز ہے کہ آج ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اپنی شاعری کے ذریعے معتبر قرار پائی ہیں ۔ورنہ تو وہ بہت اچھی ڈاکٹر ہونے کے باوجود ایک عام سی خاتون ہوتیں ۔ان ہزاروں لاکھوں خواتین میں سے ایک جو ہمارے معاشرے میں صرف چولہا جلانے یا شوہروں کے مظالم سہنے کے لئے پیدا ہوتی ہیں۔نجمہ شاہین نے اپنے دکھ کو شعر کی زبان دی ہے۔ان کی شاعری ان کے ریزہ ریزہ خوابوں کی کہانی ہے۔ان کی غزلوں اور نثری نظموں کے اس مجموعے کی سب سے بڑی خوبی جذبوں کی وہ شدت ہے جسے وہ فن پر قربان نہیں ہونے دیتیں ۔خاص طور پر نظموں میں جذبوں کی یہ شدت ہمیں نمایاں نظر آتی ہے۔انہوں نے اپنے دکھو ں کو اس خوبصورتی کے ساتھ کاغذ کی زینت بنایاکہ وہ ہمیں اپنے دکھ محسوس ہونے لگتے ہیں ۔اور یہی فنکار کا اصل ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو قاری کے دکھوں کے ساتھ ہم آہنگ کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی یہ کتاب ایک احتجاج ہے معاشرتی نا انصافیوں ، رسوم و رواج اور مظالم کے خلاف ۔۔انہوں نے آنکھیں بند رکھنے کا اعلان کر کے ایک طرف ان بد صورتیوں سے نظریں چرائیں تو دوسری جانب اس خوبصورت معاشرے کا عکس تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جو سرِ دست ہمارے اور آپ کے خوابوں میں ہی موجود ہے۔دعا ہے کہ ہم سب کو ان خوابوں کی تعبیر حاصل ہو اور ان بد صورتیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے جن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے آنکھیں بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ بدصورتیوں سے نجات کے لئے صرف آنکھیں بند کرنا کافی نہ ہو گا۔ہمیں آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے کان بھی بند رکھنا ہوں گے کہ بقول شاعر ’’کان ہوں گے تو مجھے شور سنائی دے گا‘‘

534042_10200226434089844_835375074_n

Facebook Comments