نظم ۔۔ موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں


ہاتھ میں رائیگاں سی لکیریں جو ہیں
آنکھ کے دشت میں یہ جو تصویر ہے
یہ جو تعزیر ہے
آسماں پر بکھرتے ستارے جو ہیں
موسمِ وصل کے استعارے جو ہیں
استخارے جو ہیں
اِن کو دیکھا کبھی
اِن کو جانچا کبھی
تو یہ جانا میں کب ان لکیروں میں ہوں
میں کہاں آسماں کے ستارے میں ہوں
موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں
اک شبِ ہجر ہے
اور شبِ ہجر کے میں خسارے میں ہوں


Facebook Comments