ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری اور نا رسائی کے دکھ ۔۔ پروفیسر بشریٰ قریشی


سنگلاخ پہاڑوں سے جڑا یہ شہر ڈیرہ غازی خان جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین اسی دھرتی کی بیٹی ہے جہاں کبھی عورتوں کی منڈی لگا کرتی تھی۔ اگرچہ آج یہ بیوپار ظاہراً بند کردیا گیا ہے مگر یہ بازار، یہ منڈیاں آج بھی سجتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب عورت کو جانور سمجھ کر خرید و فروخت کی جاتی تھی اور آج اس کی روح اور فکر کا سودا کیا جاتا ہے۔ اس نام نہاد تہذیب یافتہ معاشرے میں جہاں بیٹی ہونا جرم ہے ، جہاں روایات کے سلاسل نے صنف نازک کے نرم و کومل جذبوں کو بری طرح جکڑ رکھا ہے وہاں اپنی سوچ کے مطابق راہیں متعین کرنا اور ان پر چلتے چلے جانا ڈاکٹر نجمہ جیسی جری بیٹیوں کا جہاد ہے کیونکہ اگر ایسے میں کوئی اس جبر و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرت اہے تو اس کی آواز ایسے ہوتی ہے جیسے کسی گونجدار چیخ کو گلے میں دبا دیا جائے۔ نجمہ نے بھی یہ صدا بلند کی تو محض سسکی ہی نکل سکی، وہ کہتی ہے
میں ہنسنا بھول گئی ہوں
ان دکھ کی بھول بھلیوں میں
خوشی کے پل کہاں ٹھہرتے ہیں
سناٹا، وحشت، بدنصیبی
زندگی کی دھوپ دھوپ مسافت میں
سائبان تورخ بدلتے ہیں
سائبانوں کے رخ بدلنے کا یہ درد اندر ہی اندر پی جانا اور اس دکھ کو لفظوں کی توانائی دے کر کبھی ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ کبھی ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ اور ’’کبھی دئیے کی لو ‘‘ کا نام دینا یقیناًقابل ستائش ہے۔
نجمہ کی شاعری خالصتاً اس لڑکی کی کتھا سناتی ہے جو اپنے قافلے سے بچھڑی کرلاتی کونج کی طرح زندگی کے رخ بدلتے دریاؤں کے ویران کناروں پر گھومتی پھرتی ہے اور اپنا آپ تلاش کرتی ہے۔ کبھی بند سیپ میں، کبھی دریا کی اتھاہ گہرائی میں اور کبھی ڈوبتے سورج کی سنہری کرنوں جو دریا کی موجوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ جب اس کی تلاش مکمل نہیں ہوتی تو نارسائی کا دکھ لفظ بن کر اس کے وجدان پر اترنے لگتا ہے، وہ کہتی ہیں۔
میں کیسے کروں بیاں اپنی نارسائی
عورت ہونے کی کیا میں نے سزا پائی
میں جو بیٹی، بہن اور ماں کا روپ ہوں
جو سچ پوچھو تو گود سے گور تک
ان رشتوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور
خود کے لیے کڑی دھوپ ہوں
میرے جنم نے میری ماں کو سوچوں میں الجھایا
اپنی ماں کی الجھی سوچیں انہوں نے معاشرے میں ایک باوقار مقام حاصل کرکے سلجھایا اور لوگوں کو یہ بات بتا دی کہ وہ اپنی ماں کے لیے ہی نسیمِ سحر نہیں بلکہ دلوں کو تسخیر کرنے کا ملکہ بھی رکھتی ہیں۔
ظاہری جمال اور باطنی حسن کا ملاپ جب بھی ہوتا ہے تو دنیا کو صدیوں یاد رہتاہے۔ ڈاکٹرنجمہ کی شخصیت اور فن اسی وصال کا مظہر ہیں وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو دوسرے لوگوں کے لیے مثالی بن جاتے ہیں۔ چاہیے وہ وصل کی گھڑیاں ہوں یا ہجر کے لمحات، ہجر کے لمحوں میں تنہائی کے دکھ کو محسوس کرکے اپنے اندر اتارنے والے یہ لوگ زندگی کے جس شعبہ میں قدم رکھتے ہیں اپنے پورے قد اور وقار سے کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہے ان کے اندر جدائی کا غم ناسور بنا ہو یا تنہائی کا آسیب ان پر حاوی ہو وہ کسی بات سے نہیں گھبراتے۔ نجمہ کی شخصیت ایسے لوگوں میں سے ایک ہے۔ وہ کہتی ہے۔
زندگی کا قافلہ، دشتِ پتاں میں ہے رواں
سربسر جوشِ نمو، میں اور میری زندگی
موسم ہجراں سے ہے شاہینؔ اس دل کی بہار
چشم تر کی آبرو میں اور میری زندگی
وہ وقت کے اشہب پر سوار ترقی کی ساری منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر اپنے حساس دل کو جذبوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ انہیں مصروفیت کا سلِ رواں محض مٹی کا پتلا نہیں بنا سکا۔ ان کی سوچیں بنجر نہیں، ان کی فکر اپنے تمام دکھوں سے لڑتی نظر آتی ہے۔ اگرچہ وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ
وادیوں میں دل کی اب خاموش سی اک شام ہے
دشت میں کھو ہی گئیں وہ شدتیں مہکی ہوئیں
لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس کیفیت کو پیچھے چھوڑ کر تسکین کی تلاش میں اس پڑاؤ سے آگے نکل جاتی ہیں۔ اسی بات نے ان کے سخن کو ٹھہرے پانی کی بجائے ایک مترنم ، بہتا جھرنا بنا دیا۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ بدن سے روح تک کی مسیحائی کے جس دشتِ بیکراں میں ڈاکٹر نجمہ شاہن نے قدم رکھا ہے کیا وہ اس کے ساتھ انصاف کر پائیں گی۔ لیکن دوسرے مطبوعہ شعری مجموعے ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ اور تیسرے زیر طبع شعری مجموعے ’’دئیے کی لو‘‘ نے میری سوچ کی یکسر نفی کردی اور یہ واضح کردیا کہ کٹھن راستے کے سفر کے لیے محض جذبے، جنون، جوش اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس موجود ہے اور انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے
گلہ نہیں ہے جو ابر نیساں بغیر بر سے گزر گیا ہے
میں اپنے اشکوں کی آبجو سے گلاب صحرا میں بورہی ہوں
اپنے اشکوں سے صحرا میں گلاب بوتی یہ بولتی آنکھیں جذبوں کی ساری کہانی بے دھڑک سناتی چلی جاتی ہیں اور ان کی یہ کہانی سننے والا ہر شخص سحر زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے سارے دکھ، ہجر و وصال کی ساری کلفتیں اور ناقدری کے سبھی احساس سمیٹے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور زیادکتعاں بھی
ابھی تو پینا ہے زندگی کو یہ زہر کا جامِ آتشیں بھی
کہ ریزہ ریزہ وجود میرا بکھر بکھر کے سنبھل رہا ہے

جنگ لاہور ۔۔ 30 نومبر 2012

جنگ لاہور ۔۔ 30 نومبر 2012


Facebook Comments