یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں
بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے ، اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں
یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آ بسی ہے
مہکتی یادوں کی چاندنی ہے ، میں جس کی کرنوں سے جل رہی ہوں
رہِ وفا میں بھٹکتی رہتی جو تیرے سپنوں میں گم نہ ہوتی
ترے خیالوں میں جی رہی ہوں ، ترے تصور میں ڈھل رہی ہوں
شکستہ خوابوں کی کرچیاں ہیں جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں
میں خار زاروں میں چل رہی ہوں ، میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں
زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں جو میرے لہجے میں آ بسی ہیں
مَیں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے ، یہ زہر مایہ اگل رہی ہوں
کروں گی کیا بال و پر کو اپنے قفس میں جینا جو لازمی ہے
کہاں ہے شاہین شادمانی ، دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں