دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے
میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہے
اُس کے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے
آسمانوں سے جسے رب نے اتارا ماں ہے
خوشبو ایسی کہ مری روح تلک مہکی ہے
روشنی ایسی کہ بس نور کا دھارا ماں ہے
تپتے صحراؤں میں کس طرح بھٹک سکتی ہوں
مجھ کو جو راہ دکھائے وہ ستارہ ماں ہے
اُ س کے ہر دکھ کو میں لفظوں میں سموتی کیسے
میں نے اشکوں سے بس اک لفظ ابھارا ’’ماں‘‘ ہے
سب نے پوچھا کہ بھنور سے تُو بچے گی کیسے
میں نے بے ساختہ نجمہ یہ پکارا ’’ماں ہے‘‘
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ