اس کی طلب میں راہ کو تکتی ہے زندگی
آنکھوں میں وقت شام چمکتی ہے زندگی
تیرے لئے جب آنکھ برستی ہے رات کو
پھردل کے ساتھ ساتھ سلگتی ہے زندگی
دکھ سے نڈھال ہوکے جب روتی ہیں بیٹیاں
پھر ان کے لیکھ دیکھ کر ہنستی ہے زندگی
جواک خیال باعث آزار بہت ہے
اس اک خیال سے ہی چہکتی ہے زندگی
کس سے کریں یہ بات کہ جو حال ہیں یہاں
خاموش اگر ہو ں تو بلکتی ہے زندگی
رستوں کوسوچ سوچ پریشان ہیں سبھی
منزل کوکھوج کھوج سسکتی ہے زندگی
چاہت کے جوبھی زخم ہیں رکھیئے سنبھال کر
ان کی ہی باس سے تومہکتی ہے زندگی
اس نے دیا تھا ایک دیا راہ کے لئے
کب تک جلے گاآج توتھکتی ہے زندگی
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ