جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی
شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی
ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے
کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی
گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے نیازی کا
ہمیں اپنوں میں رہ کر بھی خوشی اپنی نہیں ملتی
یہ منظر، خواب ، امیدیں ،سبھی کو دان کر دینا
وفا کی راہ میں منزل کبھی یونہی نہیں ملتی
جبھی تو آج کل شاہین ہم خود سے نہیں ملتے
بہت دن ہو گئے ہم کو خبر اُن کی نہیں ملتی