خوش گمانی کوسلام اس بدگمانی کوسلام
کررہی ہوں پیار کی ہر مہربانی کوسلام
وحشتوں کے سائے ہی اپنامقدرہوگئے
وہ جومرجھانے لگی ہے اُس جوانی کوسلام
ہم مسافرہیں جنوں کے راستے پرگامزن
بے سروسامان ہیں اپنی کہانی کوسلام
راہ میں کھائے ہیں جو پتھربہت ہیں معتبر
رائیگاں موسم کی ہراک رائیگانی کوسلام
ہررکاوٹ اورہرمشکل کو آداب وخلوص
اور مرے ہرایک دکھ کی اس روانی کوسلام
ہے عقیدت بکھرے خوابوں کے لئے شاہین اور
اپنی آنکھوں سے چھلکنے والے پانی کوسلام