دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا
آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا
وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی
میرا کہیں شمار تھا، وہ بھی نہیں رہا
اُس سے ہوئے جدا تو پھر خود کو بھی کھو دیا
خود پر جو اعتبار تھا وہ بھی نہیں رہا
دامن میں کوئی چاند، ستارہ نہ آفتاب
جگنو پر انحصار تھا وہ بھی نہیں رہا
جھیلی تھیں جس کے سنگ ہی یہ رنجشیں کبھی
اک دل ہی غمگسار تھا وہ بھی نہیں رہا
الجھا تھا میرے دل میں جو مدت سے اک سوال
لب پر جو بار بار تھا وہ بھی نہیں رہا
جس پر چراغ روز جلاتی تھی رات کو
دل میں جو اک مزار تھا وہ بھی نہیں رہا
مدت سے اُس کی راہ میں دل تھا بچھا ہوا
سوچوں میں وصلِ یار تھا وہ بھی نہیں رہا
تقدیر کی اسیر ہوں جس کیلئے یہ دل
مدت سے اشکبار تھا وہ بھی نہیں رہا
معبود میرے میرا مقدر تو دیکھ لے
خود پرجو اختیار تھا وہ بھی نہیں رہا