زمانے کو خدا کیا
نہ درد کو دوا کیا
نہ حرف کو صدا کیا
بس اپ نے تو ہم کو ہجر سے ہی آشنا کیا
لگا کے اپنے دام آپ خود سے خود کو ہی جدا کیا
جو لوگ مہربان نہ تھے
آپ ان پہ مہرباں ہوئے
جو مہر بان ساعتیں تھیں ،ان سے ہی دغا کیا
دعا کو اپنے ہاتھ سے ہی یوں بد دعا کیا
لے کے نام عشق کا وفا کو ہی جفا کیا
عشق رسوا ہو گیا
زمانے کو خدا کیا
حیران ہے یہ آسماں
کہ آپ نے یہ کیا کیا
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ