چاہتوں کے رستے میں گو شجرہی ملتے ہیں
ہاں مگر یہ دکھ ہے سب بے ثمرہی ملتے ہیں
کس سے آج پوچھیں ہم کس نگروہ رہتاہے؟
ہم کوسب مسافر تو بے خبر ہی ملتے ہیں
اب خوشی کے لمحوں پراعتبارکیسے ہو؟
جب دکھوں کے لمحے سب معتبرہی ملتے ہیں
قاتلوں سے اب ہم کو خوف ہی نہیں آتا
قاتلوں کی صورت میں چارہ گرہی ملتے ہیں
اس لئے ہیں سب رستے منزلوں سے بیگانے
راہزن نہیں کوئی ، راہبرہی ملتے ہیں
کس طرح سے میں شاہین اُس کومانگ سکتی ہوں
لفظ جب دعاکے سب بے اثرہی ملتے ہیں