مجھ کو وہ حسرتوں کی یوں تصویر کر گیا


مجھ کو وہ حسرتوں کی یوں تصویر کر گیا
چنری کو تپتی دھوپ کی جاگیر کر گیا

خواہش تو تھی کہ گل کی طرح سے کھلوں مگر
وہ زرد سی رتیں ہی بس تقدیر کر گیا

جیسے ہی میں دہلیز کے اس پار آگئی
دیوارِ ہجر اک نئی تعمیر کر گیا

قصہ جنونِ عشق کا تم پوچھتے ہو کیوں
ہر ایک دکھ وہ باعثِ توقیر کر گیا

اس داستاں میں کون سا کردار ہے مرا
سوہنی ہوں، صاحباں ہوں یا کہ ہیر کر گیا؟

مدت سے ایک چاک پرہے رقص میں حیات
وہ کوزہ گر کچھ اس طرح تسخیر کر گیا

جیون میں روشنی کی ضمانت بھی ہے وہی
اک دائمی سی رات جو تحریر کر گیا

chunri


Facebook Comments