میری تنہائی کو اُس نے اور تنہا کر دیا
جھیل سی آنکھیں تھیں اِن کو خشک صحرا کر دیا
ہجر اچھا تھا جب اُس کو سوچ کر جیتے تھے ہم
اِس فریبِ وصل نے دل کو تو پیاسا کر دیا
گزرے لمحے اشک بن کر آنکھ میں روشن ہوئے
اُس کی یادوں نے اندھیرے کو بھی اجلا کر دیا
اِن لبوں پر آج بھی اُ س کی خوشی کی ہے دعا
جس نے میری ہر خوشی پر غم کا سایہ کر دیا
اُس کی یادیں خود بخود شاہین اِس میں آ گئیں
میں نے بس اتنا کیا تھا، دل کو رستہ کر دیا