سکھی آج میں تیرے واسطے پھر
اک نئی کہانی لائی ہوں
اک درد نیا سا ہے اس میں گو بات پرانی لائی ہوں
سُن سکھی کہانی سُن میری
اک بار پرانی سُن میری
اک دن کے اُجالے کا قصہ
اک بختوں والے کا قصہ
اک مہربان سے لمحے میں
اک سرد ہوا کے جھونکے میں
مَیں اک دن اس کو دیکھ رہی تھی
اور پھر اپنے مَن ہی مَن میں جانے کیا کیا سوچ رہی تھی
مَیں سوچ رہی تھی جذبوں کی کیا آنچ یہ سرد نہیں ہو گی ؟
جو ایک خوشی ہے جیون میں کیا کل بھی یہیں کہیں ہو گی ؟
مَیں سوچ رہی تھی ہجر کی جو اونچی ہیں فصیلیں چار طرف
کیا ان مضبوط فصیلوں کو ہم قیدی مل کر توڑ سکیں گے؟
اور خوشیوں کا رخ ہم اک دن پھراپنی جانب موڑ سکیں گے؟
اسی وفور سے لمحے میں پھر
چُپ کا پہرہ ٹوٹ گیا تھا
کیا جانے کیا سوچ کے اس نے
میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تھا
میرا کنگن چُھو کر اُس نے
میری کلائی پر موجود وہ ایک سیہ تِل دیکھ لیا تھا
اور سیہ بختی کی علامت دیکھ کے اُس بختوں والے کے
چہرے پر اک کرب ابھرا تھا
اس ریشم سے لمحے میں بس
میری آنکھ کا سارا دریا ایک ہی قطرے میں سمٹا تھا
پلکوں کا وہ قیدی قطرہ
آنکھ فصیل کو توڑ کے اس کے ہاتھ پہ آخر آن گرا تھا
لیکن ہجر کا آبِ زم زم اُس نے ہاتھ سے جھٹک دیا تھا
درد کا وہ انمول سا قطرہ
وصل کا اک انمول سا لمحہ
اک نئی کہانی لائی ہوں
اک درد نیا سا ہے اس میں گو بات پرانی لائی ہوں
سُن سکھی کہانی سُن میری
اک بار پرانی سُن میری
اک دن کے اُجالے کا قصہ
اک بختوں والے کا قصہ
اک مہربان سے لمحے میں
اک سرد ہوا کے جھونکے میں
مَیں اک دن اس کو دیکھ رہی تھی
اور پھر اپنے مَن ہی مَن میں جانے کیا کیا سوچ رہی تھی
مَیں سوچ رہی تھی جذبوں کی کیا آنچ یہ سرد نہیں ہو گی ؟
جو ایک خوشی ہے جیون میں کیا کل بھی یہیں کہیں ہو گی ؟
مَیں سوچ رہی تھی ہجر کی جو اونچی ہیں فصیلیں چار طرف
کیا ان مضبوط فصیلوں کو ہم قیدی مل کر توڑ سکیں گے؟
اور خوشیوں کا رخ ہم اک دن پھراپنی جانب موڑ سکیں گے؟
اسی وفور سے لمحے میں پھر
چُپ کا پہرہ ٹوٹ گیا تھا
کیا جانے کیا سوچ کے اس نے
میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا تھا
میرا کنگن چُھو کر اُس نے
میری کلائی پر موجود وہ ایک سیہ تِل دیکھ لیا تھا
اور سیہ بختی کی علامت دیکھ کے اُس بختوں والے کے
چہرے پر اک کرب ابھرا تھا
اس ریشم سے لمحے میں بس
میری آنکھ کا سارا دریا ایک ہی قطرے میں سمٹا تھا
پلکوں کا وہ قیدی قطرہ
آنکھ فصیل کو توڑ کے اس کے ہاتھ پہ آخر آن گرا تھا
لیکن ہجر کا آبِ زم زم اُس نے ہاتھ سے جھٹک دیا تھا
درد کا وہ انمول سا قطرہ
وصل کا اک انمول سا لمحہ
اُس پل خاک میں خاک ہوا تھا
ہجر کے دریا کے شعلوں میں
میرا جیون راکھ ہوا تھا
ہجر کے دریا کے شعلوں میں
میرا جیون راکھ ہوا تھا