پھر کارگاہِ عشق میں لایاگیامجھے
پھر زندگی کاخواب دکھایاگیامجھے
اک درد لادوامر ے حصے میں ڈال کر
سپنوں کے دیس سے بھی جگایاگیامجھے
حیرت زدہ ہے آنکھ اورحیراں ہے زندگی
آئینہ خانے میں جو بلایاگیامجھے
ہنستی ہے میری آنکھ تو روتا ھے میرادل
سوزوالم کے گیت میں گایاگیا مجھے
کھلنے لگ ہیں زخم گلابوں کے رنگ میں
رنگِ خزاں میں ایسے سجایاگیامجھے
عشق ووفاکے ساتھ ہی اک ہجرِناتمام
کیسے خمیر۔ِ غم سے بنایا گیامجھے
تشنہ سی زندگی ہے جو دل کے فرات پر
کرب وبلاکاروپ دکھایاگیامجھے
جس میں دہک رہا تھا مرے خواب کا آلاؤ۔۔۔
ایسی فصیلِ جاں میں جلایاگیامجھے
اب حوصلہ نہیں ہے کہ میں کرچیاں چنوں
اک بھربھری زمیں میں چھپایاگیامجھے
اذنِ سفر ملا تھا یوں شب کی سفیر کو
جگنو میں ماہتاب دکھایا گیا مجھے
ہونے لگے ہیں آس کے سارے چراغ گل
شاہین تیرگی میں بسایاگیامجھے
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ