کیسے گزرے ہیں یہ حالات ، نہ پوچھو مَیّا
مجھ سے آنکھوں کی یہ برسات ، نہ پوچھو مَیّا
چاند کل جس کی پناہوں کو ترستا تھا اُسے
ٹُوٹے تارے سے ہوئی مات ، نہ پوچھو مَیّا
اک زمیں زاد کے آنچل میں ستارے کیسے ؟
میرے ظلمت میں ہیں دن رات ، نہ پوچھو مَیّا
اِذن جینے کا مجھے سب نے دیا تھا ایسے
جس طرح دیتے ہیں خیرات، نہ پوچھو مَیّا
عشق کرتا ہے زمانے میں سبھی کو رسوا
درد بن جاتے ہیں بارات، نہ پوچھو مَیّا
دشمنوں سے تو مجھے خوف نہیں تھا کوئی
رہ میں اپنوں کی مگر گھات ، نہ پوچھو مَیّا
دلِ نادان سمجھتا رہا رانجھا جس کو
اُس میں کھیڑوں کی ملی ذات ، نہ پوچھو مَیّا
جو لبوں پر ہیں یہی سُن لو ، یہی کافی ہیں
دل میں ہیں جو بھی سوالات ، نہ پوچھو مَیّا
قافلہ درد کا اس روح میں کیسے ٹھہرا؟
بھیگی آنکھوں کی ملاقات، نہ پوچھو مَیّا
لفظ جتنے تھے اکارت ہی گئے ہیں شاہیں
دل کی سمجھا نہ کوئی بات ، نہ پوچھو مَیّا