یوں تیری قربت بھلا رہی ہوں
کہ جیسے دنیا سے جا رہی ہوں
رہے تری بے رخی سلامت
میں رسمِ الفت نبھا رہی ہوں
کسی کی یادیں سلا کر اب تک
میں خود کو کیوں کر جگا رہی ہوں
کوئی مجھے روز توڑتا ہے
میں روز خود کو بنا رہی ہوں
وہ بات جو بات ہی نہیں ہے
وہ بات سب کو بتا رہی ہوں
جلا کے اس نے بجھا دیا تھا
میں بجھ کے خود کو جلا رہی ہوں
سماعتوں کا ہے قحط پھر بھی
وفا کے نغمے سنا رہی ہوں
بھلا سکی ہوں کہاں سے تجھ کو
یہ یاد خود کو دلا رہی ہوں
نہ کوئی پونچھے گا اشک میرے
سو دردِ دل اب چھپا رہی ہوں