یہ شہرِ دل عجیب موسموں سے آشنا ہوا


یہ شہرِ دل عجیب موسموں سے آشنا ہوا
کہ ہر طرف بس ایک ہی خیال ہے بسا ہوا

بدلتے موسموں میں تم نے گر بھلا دیا تو کیا
ملا ہے زخم حسرتوں کے روپ میں ڈھلا ہوا

نصیب ہوں ،نئی مسافتیں تجھے نصیب ہوں
مرے نصیب میں تو بس عذاب ہے سجا ہوا

خلش وصال کی ہے میرے دل کی بارگاہ میں
مگر کتابِ زندگی میں ہجر ہے لکھا ہوا

میں ہاتھ کی لکیر میں تلاشتی رہی اُسے
رگوں میں خون کی طرح وہ اب بھی ہے رچا ہوا

ہوا سے نام لکھ رہی ہوں ساحلوں کی ریت پر
ملے گا اس کا ایک ایک حرف بس مٹا ہوا


Facebook Comments