جب وفاؤ ں کا دیا جل کر دھواں ہو جائے گا


جب وفاؤ ں کا دیا جل کر دھواں ہو جائے گا
اپنا ہر نام و نشاں پھر بے نشاں ہو جائے گا

چھوڑ جائیں گے مکیں ، ہوں گی فقط محرومیاں
دشتِ وحشت میں یہ دل اجڑا مکاں ہو جائے گا

عمر بھر کے جس سفر کو رائیگاں کہتے ہو تم
اک نہ اک دن دیکھنا کارِ جہاں ہو جائے گا

چوٹ کھائیں گے کہیں اور غم رلائیں گے کہیں
مہرباں وقت اس طرح نا مہرباں ہو جائے گا

جب لکیروں میں ڈھلے گا میرے دل کا اضطراب
غم کہانی سے نکل کر داستاں ہو جائے گا

کیا خبر تھی میں سوالوں میں ہی بس کھو جاؤں گی
ایک لمحہ زندگی کا امتحاں ہو جائے گا

اک دیا جلتا رہے گا اِس میں اُس کی یاد کا
اور مرا دل عشق کا اک آستاں ہو جائے گا

ایک دن شاہیں مری آواز سن لیں گے سبھی
میرا ہر اک شعر میرا ترجماں ہو جائے گا


Facebook Comments