شام کیوں ٹھہرتی ہے؟ ۔۔ رضی الدین رضی


ڈیرہ غازی خان کے نواح میں ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے بستی جندانی کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔اسی بستی کی ایک بچی اپنی بہن کے ہمراہ بستی سے دور ایک سکول جایا کرتی تھی۔ایک چھوٹا ساسکول۔۔ جیسے دورافتادہ بستیوں میں ہوتا ہے۔ایک روز اس بچی سے اس کی استانی نے پوچھا ’’تم بڑی ہو کر کیابنوگی‘‘۔بچی نے کسی توقف کے بغیر جواب دیا ’’ڈاکٹر بنوں گی‘‘ ۔استانی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ممکن ہے کلاس کی باقی لڑکیاں بھی ہنس پڑی ہوں اوریہ بات بھی ہنسنے کی ہی توتھی ۔ایک چھوٹی سی بستی کی بچی ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔اتنی چھوٹی سی بستی اتنی چھوٹی سی بچی اوراتنا بڑا خواب۔خوابوں پر اگرچہ کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ،سوچوں کو پابندِ سلاسل کرنابھی ممکن نہیں۔لیکن معاشرے کا ایک رویہ ہے اورطے شدہ اصول بھی کہ خواب ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق دیکھناچاہیے۔کہاں میڈیکل کالج اورکہاں بستی جندانی سے دور ایک پرائمری سکول اوراس پرائمری سکول کی ایک بچی کہتی تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔کوئی لڑکا یہ بات کرتا تو شاید اس کامذاق نہ اڑایا جاتا۔اسے تھپکی بھی دی جاتی کہ لڑکے کیلئے تو بہت آسان ہوتا ڈاکٹربننا۔وہ پرائمری کے بعد کسی قصبے یا شہر میں جاکر مڈل یا ہائی سکول میں داخلہ لیتا ۔پھرکسی اورشہر میں جاکر ڈاکٹربھی بن جاتا۔ لڑکوں کیلئے تو سب کچھ بہت آسان ہوتا ہے۔
استانی کی حیرت بھی غلط نہیں تھی ۔وہ اس علاقے کی روایات سے واقف تھی۔وہ جانتی تھی کہ اس علاقے میں بیٹیوں کو پرائمری کے بعد گھربٹھا دیاجاتا ہے اوردوچارسال بعد بیاہ دیا جاتا ہے۔لڑکی کے خواب کیسے ہی کیوں نہ ہوں؟وہ کتنی ہی اعلیٰ تعلیم کیوں نہ حاصل کرناچاہتی ہو؟قبائلی رسوم ورواج میں اُس کی خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔اورہم قبائل ہی کو کیوں الزام دیں ماڈرن شہروں میں رہنے والے ہم جیسے نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال لوگ بھی تو عورت کے حوالے سے کم وبیش یہی ر ویہ رکھتے ہیں۔مذہب نے جب عورت کی گواہی آدھی اور وارثت میں اس کا حصہ ایک چوتھائی کردیا تو مرد بھلا کیوں خاموش رہتا۔اس نے مذہب کانام لے کر عورت کے رہے سہے حقوق بھی سلب کرلیے۔اور مذہب کا نام لینے کا تو تکلف ہی کیاگیا،عورت کابھلا کونسا کوئی مذہب ہوتاہے۔شادی سے پہلے وہ اپنے والدین کے اپنائے ہوئے مذہب یا فرقے کے مطابق زندگی گزارتی ہے اورشادی کے بعد اسے اپنے شوہر کے عقیدے کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عقیدت اور عقیدے کی یہی تو اہمیت ہے۔بات دوسری جانب نکل گئی ذکر ہورہا تھا اُس بچی کا جس نے اپنی استانی کے سامنے ڈاکٹربننے کا خواب بیان کیاتھا۔استانی حیران تھی کہ بستی جندانی کی اس بچی کو یہ خواب دیکھنے کی جرأت کیسے ہوئی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک دیہاتی بچی نے یہ خواب دیکھنے کا حوصلہ اس لیے کیا کہ یہ خواب اسے اس کے والد نے دکھایا تھا اوربچی بھی جانتی تھی کہ جس نے اسے یہ خواب دکھایا ہے وہ اس کی تعبیر بھی ضرور لا کردے گا۔
پھرایک روزاسی بچی نے ریڈیو پر کوئی غزل سن کر اپنی کاپی میں نوٹ کرلی۔ہوم ورک یا کلاس ورک چیک کرتے ہوئے غزل پراستانی کی نظرپڑگئی۔’’ہائے میں مرجاؤں تم تو شاعری کرتی ہو‘‘استانی تو جیسے بے ہوش ہوتے بچی ۔’’نہیں استانی جی یہ میری شاعری نہیں ہے میں نے تو ریڈیو پر کچھ سنا ،مجھے اچھالگا اور میں نے اسے کاپی پر لکھ لیا‘‘۔لیکن یہ وضاحت بھی استانی کی سمجھ سے بالاتر تھی۔بلکہ اس وضاحت میں ایک اوروضاحت طلب سوال یہ تھا کہ آخر اس لڑکی کو کسی اور کی شاعری بھی کیوں پسند آئی۔ہمارے ہاں تو اگر کوئی نوجوان لڑکابھی شاعری کی طرف راغب ہو تو معاشرے اورخاندان میں خاصی ناگواری کا اظہارکیاجاتا ہے ۔ہمیں یاد ہے 1978ء میں جب ہمارے گھروالوں کو علم ہوا کہ ہم نے شعر کہنا شروع کردیئے ہیں تو ہمارے گھر میں بھی گویا صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔شاعری چونکہ لڑکے نے شروع کی تھی اس لیے سب نے صبروشکر کیا اور خاموش ہوگئے ۔ لیکن معاملہ اگر لڑکی کاہو اوروہ بھی بستی جندانی کی لڑکی کا تو یہ ناقابلِ معافی ہوجاتا ہے۔لیکن اس وقت ابھی اس بچی نے شاعری شروع نہیں کی تھی ۔
وہ بچی جب پیدا ہوئی تواُس کے والد نے اُس کانام نجمہ شاہین رکھاتھا۔یہ نام بلندی کی علامت ہے۔’’نجمہ‘‘ ایک چمکتا ستارہ اور ’’شاہین‘‘ جو بہت بلندی پرپرواز کرتا ہے۔اس کے والد جان محمد کھوسہ نے یہ نام ممکن ہے لاشعوری طورپرہی رکھا ہولیکن آج نجمہ شاہین واقعی بلندی پر ہیں ۔اور اس مقام تک پہنچنے میں بنیادی کردار ان کے والد کاہی ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی عورت کو عملی زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سہارا شادی سے پہلے اس کاباپ اوربھائی ،شادی کے بعد اس کاشوہر بنتا ہے۔جن خواتین کو یہ سہارامیسرنہ ہو ان میں کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہو وہ پرواز نہیں کرسکتیں۔نجمہ شاہین کو شادی سے پہلے اپنے والد جان محمد کھوسہ اور شادی کے بعد اپنے شوہر غلام فرید کھوسہ کا سہارا میسر آیاتو ان کے راستے کی بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئیں۔
پہلا مرحلہ ڈاکٹر بننے کاتھا۔نجمہ شاہین کھوسہ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے والد انہیں ڈیرہ غازی خان کی ایک لیڈی ڈاکٹر کی مثال دیاکرتے تھے ۔اس لیڈی ڈاکٹرکانام ڈاکٹر ثریا نثار تھا۔آج سے کئی سال پہلے کے ڈیرہ غازی خان کو چشم تصور میں دیکھیں ،اس زمانے میں ایک ہی خاتون ڈاکٹر وہاں کی خواتین کے زخموں پر مرہم رکھتی تھیں۔جان محمد کھوسہ بھی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر ثریا نثار کی طرح انسانیت کی خدمت کرے۔نجمہ شاہین 1991ء میں ملتان آئیں اورجب نشترمیڈیکل کالج سے انہوں نے 1996 ء میں ایم بی بی ایس کیا تو ان کی اپنی ہی نہیں ان کے والد کی خوشی بھی دیدنی تھی۔بستی جندانی سے دور پرائمری سکول میں اپنی استانی کو اپناخواب بتانے والی بچی اب ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ بن چکی تھی۔آج وہ ڈیرہ غازی خان میں اپنا ہسپتال چلارہی ہیں اور سرائیکی وسیب کے طول وعرض سے آنے والی خواتین کے زخموں پرمرہم رکھتی ہیں۔
شاعری کا سفر بعد میں شروع ہوا ۔جب بچی نے سکول کی ایک کاپی پر ریڈیو سے کوئی گیت یا غزل نقل کی تھی تو اس وقت اسے خودبھی معلوم نہ تھا کہ کبھی اس نے بھی ایسی ہی غزلیں کہنی ہیں۔لیکن یہ عمل بتاتا ہے کہ شاعری اس کے لاشعور میں کہیں اس وقت بھی موجودتھی ۔شعری سفر اس نے اس وقت شروع کیا جب وہ ڈاکٹربن چکی تھی۔وقت پرلگا کر اڑرہا تھا ۔روزوشب معمول کے مطابق بسرہورہے تھے۔موسم تبدیل ہوتے ،شاموں صبحوں اور صبحیں شاموں میں بدلتی تھیں۔ایسے میں ایک شام دبے پاؤں آئی اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے جیون میں ٹھہرگئی۔ملتان میں ہی اپنے قیام کے آخری دنوں کی ایک شام ان کے شعری سفرکاآغازبنی ۔شام دلفریب بھی ہوتی ہے اوردل فگاربھی۔یہ دن ڈھلنے کااستعارہ بھی ہے اور وصل کاپیغام بھی۔ہاں یہ شام اگر جیون میں ٹھہر جائے تو آنکھوں کی چمک ماند پڑجاتی ہے اوراداسی چہرے پر تحریر ہوتی ہے ۔کوئی منظر ،کوئی لمحہ ،کوئی ساعت ایسی ضرورہوتی ہے کہ جو ہمارے جیون اور ہماری روح میں بسیر ا کرتی ہے ۔یہ ساعت کوئی صبح بھی ہوسکتی ہے اور کوئی شام بھی،کوئی مسکراتا لمحہ بھی اور کوئی اشک بہاتا موسم بھی۔لیکن حقیقت کچھ اورہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہوتی ہے کہ موسم ،لمحے یا ساعتیں جیون میں نہیں ٹھہرتیں ہم خود ہمیشہ کیلئے کسی موسم ،کسی لمحے یا کسی ساعت میں ٹھہر جاتے ہیں۔جیسے ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ ایک شام میں خود ٹھہر گئیں اور اب کہتی ہیں ’’اور شام ٹھہرگئی‘‘۔
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے اپنے تیسرے شعری مجموعے کو ’’اور شام ٹھہرگئی‘‘ کاعنوان دیا تو شام کو ایک نئی معنویت مل گئی۔یہ عنوان ان کی ذات سے بالاتر ہو کر پورے معاشرے کا منظرنامہ بن گیاہے۔ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں ،جس ماحول میں بظاہر زندہ ہیں وہاں ہم سب کی زندگیوں میں شام ٹھہر چکی ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں بہت سی سچائیاں ہیں اور بہت سی تلخیاں۔وہ تمام تلخیاں اور سچائیاں جو ہمارے گرد و پیش میں موجود ہیں ۔بہت کچھ انہوں نے کہہ دیا اور بہت کچھ ان کہا رہنے دیا۔یہ کتاب سرائیکی وسیب کی خواتین کی زندگیوں سے وابستہ شام کی کہانی ہے۔وہ شام جو ان کے جیون میں ٹھہر گئی یا جس شام میں انہیں ہمیشہ کیلئے مقید کردیاگیا۔ایک شامِ غریباں ہے جو اب صرف شام کے بازاروں اور درباروں سے ہی وابستہ نہیں اس دھرتی کی ہرگلی،ہرکوچے اورہربستی میں برپا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی اس کتاب میں ہمیں ان کے ذاتی دکھ اجتماعی دکھوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں اور یہی اچھے شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو صرف اپنی ذات تک محدودنہیں رہنے دیتا۔ اگران کے شعر ،ان کی غزلیں اور ان کی نظمیں ہرخاص و عام میں پسند کی جاتی ہیں تو ا س کی بنیادی وجہ ان کے جذبوں کی سچائی ہے۔بات دل سے نکلتی ہے توپھردلوں پر دستک بھی ضروردیتی ہے۔ان کی غزلوں اور نظموں میں ہمیں ایک خاص اداسی دکھائی دیتی ہے جو قاری کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔
آج ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ تین شعری مجموعوں کی خالق ہیں۔ان کی پہلی کتاب ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘اور دوسری ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ہرمرتبہ ہمیں وہ آگے کاسفر طے کرتی دکھائی دیں۔وہ استانی جس نے ان کی ڈائری میں غزلیں دیکھ کر تشویش کااظہارکیاتھا اب کہاں اورکس حال میں ہیں یہ تو کسی کو معلوم نہیں لیکن ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ اب ڈیرہ غازی خان ہی اپنے پورے وسیب کی پہچان بن چکی ہیں،مان بن چکی ہیں۔ایک مسیحا کی حیثیت سے بھی اور ایک شاعر کے طورپر بھی۔وہ دن رات مسیحا بن کرخواتین کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں ۔ان کے دکھ سنتی ہیں اوران دکھوں کا مداوا بھی کرتی ہیں۔پھرانہی دکھوں کو قرطاس پر رقم کردیتی ہیں۔ان کی شاعری عورت کے دکھوں کی کہانی ہے۔وہ عورت جس کے قدموں کے نیچے جنت ضرورہے لیکن اس تنگ نظر معاشرے کامرد اسے اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے میں فخر محسوس کرتاہے۔وہ عورت جسے تیزاب پھینک کر قتل کیاجاتا ہے،جسے مرد کی غیرت کی بھینٹ چڑھایاجاتا ہے اورجسے قرآن کے ساتھ بیاہ دیاجاتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اب ان تمام خواتین کی آواز ہیں۔
وہ ایک باوقار،مہذب اورشائستہ خاتون ہیں۔انہوں نے ثابت کیا کہ عورت اپنے تقدس کو برقراررکھتے ہوئے بھی وہ سب کچھ حاصل کرسکتی ہے جس کے حصول کیلئے بعض خواتین سبھی کچھ داؤ پر لگادیتی ہیں۔وہ ایک مثال ہیں ان سینکڑوں ہزاروں لڑکیوں کے لئے اوران کے والدین کیلئے جنہیں کسی انجانے خوف اور اندیشے کے باعث تعلیم سے دوررکھاجاتاہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ والدین جب اپنی بیٹیوں پراعتماد کرتے ہیں تو بیٹیاں بھی ان کے اعتماد پر پورا اترتی ہیں اوران کے وقار کوکبھی ٹھیس نہیں لگنے دیتیں ۔انہیں اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے شاعری کیلئے بہت کم وقت ملتا ہے لیکن اس کم وقت میں بھی انہوں نے جس تیزی کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کیے وہ قابل ستائش ہیں۔ان کے پاس نثر میں بھی بہت کچھ موجودہے۔بہت سی تحریریں اور بہت سی ڈائریاں جوان کے نثرپاروں سے بھری ہوئی ہیں ابھی اشاعت کی منتظرہیں۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ان کی نثربھی جلد منظرعام پرآئیگی اور وہ اسی ثابت قدمی ،لگن اوروقار کے ساتھ یہ ادبی سفر جاری رکھیں گی۔اور ان کی تقلید میں دور افتادہ بستیوں کی اور بہت سی لڑکیوں کوبھی پرواز کا حوصلہ ملے گا اورجب بستیوں کی لڑکیوں میں حوصلہ آئے گا تو معاشرے سے بہت سی پستیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔


Facebook Comments