مل رہی ہیں چار سو کیوں وحشتیں بہکی ہوئی
مل رہی ہیں چار سو کیوں وحشتیں بہکی ہوئی کس گلی میں رہ گئیں وہ قربتیں نکھری ہوئی اب مہک تیری مری ہر پور میں یوں رچ گئی منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا رنجور اب
مل رہی ہیں چار سو کیوں وحشتیں بہکی ہوئی کس گلی میں رہ گئیں وہ قربتیں نکھری ہوئی اب مہک تیری مری ہر پور میں یوں رچ گئی منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا رنجور اب
عشق کو آنکھ میں جلتے دیکھا پھول کو آگ میں کھِلتے دیکھا عشق کے راز نہ پو چھو صاحب عشق کو دار پہ چڑھتے دیکھا عشق ہے واجب ،اس کو ہم نے جسم اور جاں میں اترتے دیکھا عشق کے دام بھی لگ جاتے ہیں مصر میں
ہوں عشق میں مالا مال پیا ہر سو بس تری دھمال پیا ہو اک پل صرف وصال پیا میں ہجر میں ترے نڈھال پیا ترے خیال میں گزرے سال پیا یہ عشق نظر کا کمال پیا جس نگری عشق کا راج ہوا کیاِ ِ ’’میں‘‘ ’’تو‘‘ کا
سکھی آج یہ کیسی نیند آئی بے خواب آنکھوں کو خواب میں اُس بچھڑے ماہی کی دید آئی اب ڈر کے نہ میں آنکھیں کھولوں اک لفظ نہ خواب میں بھی بولوں کہیں اُس سے بچھڑ نہ جاؤں میں جیتے جی مر ہی نہ جاؤں میں
جو نوحے کسی کی جدائی پہ لکھے زمانے کی ہرزہ سرائی پہ لکھے وہ سب زخم اب پھول بننے لگے ہیں مرے ہجر پر اُس کی یادوں کے دیپک بہت ہنس رہے ہیں مچلنے لگے ہیں یہ دل ایک بنجر زمیں کی طرح تھا یہاں ہم نے جو
اپنے پیروں کے چھالوں اور دل کے زخم کو پھول لکھا ہم نے وصل کی خواہش کو بہکے جذبوں کی بھول لکھا ہم تقدیر کی چال کو تال بنا رقص کناں تو ہیں وقت نے در بدری کو ہمارے جیون کا معمول لکھا
سال تو کم ہیں مقدر میں ترے صدیاں چاہوں غم کبھی بھی نہ ملیں ایسی میں خوشیاں چاہوں خار تقدیر بنیں گردِ سفر کی جاناں تیرے حصے میں فقط پھول اور کلیاں چاہوں اس سفر میں تجھے رستے ملیں اجلے اجلے راہ میں
زمیں ملے کہیں ہمیں ، کہیں تو آسماں ملے دکھوں کی دھوپ میں شجر کوئی تو مہرباں ملے ترے فراق میں جئے ، ترے فراق میں مرے چلو یہ خواب ہی سہی ، وصال کا گماں ملے الم کی شام آگئی ، لو میرے نام آ گئی چراغ
گئی رتوں کی رفاقتوں میں تمہیں ملوں گی مَیں چاہتوں کی ریاضتوں میں تمہیں ملوں گی تم اپنی منزل کے راستوں میں جو دیکھ پاؤ تو راستوں کی صعوبتوں میں تمہیں ملوں گی نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں