آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار
آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار اِس رعایا کو ملا یوں بادشاہوں کا حصار دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے اشک تھے اورساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں
تازہ ترین
آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار اِس رعایا کو ملا یوں بادشاہوں کا حصار دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے اشک تھے اورساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں
مجھ کو وہ حسرتوں کی یوں تصویر کر گیا چنری کو تپتی دھوپ کی جاگیر کر گیا خواہش تو تھی کہ گل کی طرح سے کھلوں مگر وہ زرد سی رتیں ہی بس تقدیر کر گیا جیسے ہی میں دہلیز کے اس پار آگئی دیوارِ ہجر اک نئی
میں نے برسوں عشق نماز پڑھی تسبیحِ محبت ہاتھ لئے چلی ہجر کی میں تبلیغ کو اب تری چاہت کی آیات لئے اک آگ وہی نمرود کی ہے میں اشک ہوں اپنے ساتھ لئے مجذوب ہوا دل بنجارہ بس زخموں کی سوغات لئے دل مسجد
اُجاڑ رات ہے ، تنہائی ہے ، قیامت ہے وہ سامنے ہے کہ جذبوں میں اتنی شدت ہے کل اُس کے لفظ پڑھے تو مجھے کچھ ایسا لگا زبانِ غیر میں لکھی ہوئی عبارت ہے جو میری مانگ میں کچھ زخم جگمگاتے ہیں کسی کے عشق
دل اُسی کا غلام ہے اب تک عشق کا احترام ہے اب تک اس سے آباد شب کی تنہائی اس کا ہی اہتمام ہے اب تک وصل کی راہ میں نہیں کچھ بھی ہجر والی ہی شام ہے اب تک روح میں ہے ابھی مہک اُس کی لب پہ اُس کا ہی
جہاں چاہو میرا نام لکھو ،جو چاہو تم الزام لکھو مجھے عشق نے برسوں قید رکھا ،مجھے ہجر کی گہری شام لکھو مرے جوش جنوں کا یہ تنہا سفر، اے چارہ گرو تمہیں کیا ہے خبر مرے پاس ہے جو بھی یہ دردِ ہُنر،اسے
نہ گل میں نہ اب گلستاں ہی میں ڈھونڈو محبت کو بس آستاں ہی میں ڈھونڈو نشانی محبت کی تم کو ملے گی کسی ایک دھندلے نشاں ہی میں ڈھونڈو پتہ شہرِ دل کی بہاروں کا اب تم کہیں بام ودر کی خزاں ہی میں ڈھونڈو
اے عشق تُو گردِ سفر بنا ، تری اور بھلا توقیر ہے کیا تو خود ہی حسرت کا مارا ،ترا خواب ہے کیا تعبیر ہے کیا اے عشق تُو بکتا رہتا ہے ،کبھی راہوں میں کبھی بانہوں میں تُو بوجھ ہے دل کی دنیا کا ، مرے
ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے جب امید نہ باقی ہو تو صرف دلاسہ رہ جاتا ہے زخم بہت سے مل جاتے ہیں وقت ذرا سا رہ جاتا ہے دل سے درد نکل کر بھی تو اچھا خاصا رہ جاتا ہے موجیں جب بھی چھو
جب وفاؤ ں کا دیا جل کر دھواں ہو جائے گا اپنا ہر نام و نشاں پھر بے نشاں ہو جائے گا چھوڑ جائیں گے مکیں ، ہوں گی فقط محرومیاں دشتِ وحشت میں یہ دل اجڑا مکاں ہو جائے گا عمر بھر کے جس سفر کو رائیگاں