جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی
جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے
تازہ ترین
جہاں دل کو بسانا ہو وہ بستی ہی نہیں ملتی شکستہ پا ارادے ہوں تو منزل بھی نہیں ملتی ہمیں اس زندگی کو زندگی کرنا ہی مشکل ہے کہ اس پُر خار رستے پر تو آسانی نہیں ملتی گلہ اغیار سے کیوں کر کریں پھر بے
اُس بے وفا مزاج کی اپنی روایتیں ہیں یاد تیرے شہر کی ساری عنایتیں بے سایہ سب شجر تھے اور بے سائباں فلک موجود تھیں وہاں تو ازل کی حکایتیں انعام کی طرح سے ملا ہم کو ہر ستم لیکن لبوں پہ لا نہ سکے تھے
میری تنہائی کو اُس نے اور تنہا کر دیا جھیل سی آنکھیں تھیں اِن کو خشک صحرا کر دیا ہجر اچھا تھا جب اُس کو سوچ کر جیتے تھے ہم اِس فریبِ وصل نے دل کو تو پیاسا کر دیا گزرے لمحے اشک بن کر آنکھ میں روشن
یہ شہرِ دل عجیب موسموں سے آشنا ہوا کہ ہر طرف بس ایک ہی خیال ہے بسا ہوا بدلتے موسموں میں تم نے گر بھلا دیا تو کیا ملا ہے زخم حسرتوں کے روپ میں ڈھلا ہوا نصیب ہوں ،نئی مسافتیں تجھے نصیب ہوں مرے نصیب
ایک تو ڈیرہ غازی خان جیسے نسبتاََ دُور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق اُس پر ڈاکٹری جیسے سائنس نژاد مضمون میں تخصیص اور ان دونوں مشکِلات کے باوجود تین عمدہ شعری مجموعوں کی تخلیق ،اپنی جگہ پر
مِل رہی ہیں چار سُو کیوں وحشتیں بکھری ہوئی کس گلی میں رہ گئیں وہ قربتیں نکھری ہوئی اب مہک تیری ، مری ہر پور میں یوں رچ گئی منتظر ہیں آنکھ میں کچھ حیرتیں دہکی ہوئی ہجر کی وحشت نے دل کو کر دیا
جب سے تجھ سے دور ہوئے ہم صدموں سے مہجور ہوئے ہم عشق کا کب یارا تھا ہم کو فطرت سے مجبور ہوئے ہم
آپ کے ہیں روبرو میں اور میری زندگی جلوۃ صد آرزو میں اور میری زندگی آپ ہی ہیں بزم آرا اور بزمِ ناز بھی پھر رہے ہیں کو بہ کو میں اور میری زندگی گرشِ دوراں سے ہیں دست و گریباں دیر سے صورتِ جام و سبو
یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے ، اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آ بسی ہے مہکتی یادوں کی چاندنی
ہجر میں بھی یہ مری سانس اگر باقی ہے اس کا مطلب ہے محبت میں اثر باقی ہے چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے تم ستم گر ہو نہ گھبراؤ مری حالت پر زخم سہنے کا ابھی مجھ