خود کو بھول جانے کا وعدہ کر رہے ہیں ہم
خود کو بھول جانے کا وعدہ کر رہے ہیں ہم بن ترے ہی جینے کا ارادہ کر رہے ہیں ہم روح و جاں کا رشتہ بس ٹوٹنے ہی والا ہے اور اب غموں کو ہی لبادہ کر رہے ہیں ہم سیدھے سادھے لفظوں میں اس کو ہم نے مانگا ہے
تازہ ترین
خود کو بھول جانے کا وعدہ کر رہے ہیں ہم بن ترے ہی جینے کا ارادہ کر رہے ہیں ہم روح و جاں کا رشتہ بس ٹوٹنے ہی والا ہے اور اب غموں کو ہی لبادہ کر رہے ہیں ہم سیدھے سادھے لفظوں میں اس کو ہم نے مانگا ہے
دوستی کے لہجے میں دشمنی نے ماراہے دکھ تو یہ ہے ہم کو بس اک خوشی نے ماراہے تیرگی کا ہم کریں اب گلہ بھلا کیسے ہم کو چاند راتوں میں چاندنی نے مارا ہے دردِ نا رسائی اب ہم کو کیسے مارے گا الوداعی
اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا میرے یقین کا ہر اک سامان لے گیا کچھ خواب تھے، کہ پھول تھے، تعبیر تھی یہاں جاتے ہوئے وہ اپنے سب پیمان لے گیا یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں ہاتھوں سے میرے
چاندنی چپ رہی ، روشنی چپ رہی میری ہر بات پر زندگی چپ رہی ہم تو گھٹ گھٹ کے اک روز مر جائیں گے اس گھٹن میں اگر آنکھ بھی چپ رہی درد میرا بیاں اِن سے کب ہو سکا شعر خاموش تھے ، شاعری چپ رہی اک یقیں
دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہے اُس کے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے آسمانوں سے جسے رب نے اتارا ماں ہے خوشبو ایسی کہ مری روح تلک مہکی ہے روشنی ایسی
پوچھتی ہوں تمہیں اک سوال آج میں پوچھتی ہوں وہ لمحے کہاں ہیں بھلا جو ترے پاس تھے جو مری آس تھے میرے لمحے بھلا دھول کیسے ہوئے ؟ خواب وہ وقت کی دھول کیسے ہوئے ؟ کیسے بجھنے لگے تھے ستارے سبھی؟ کیسے
اسے کہو جب بھی وہ میری تصویر دیکھے میری آنکھوں میں چھپے گرداب پڑھ لے مرے بے رنگ ہونٹوں کی خموش زباں کو سمجھے اور میری ژویدہ پیشانی مانند کتاب پڑھ لے میرے اوراق میں بکھرے ہوئے لفظوں کو سمیٹے گردش
اے میرے بے چین و بے قرار دل کیا تجھے معلوم ہے اسکابھی کوئی پل ایسا گزرتا ہو گا جیسے تو نے اسے پل پل سوچا اس نے بھی تجھ کو سوچا ہو گا جیسے یادیں ڈستی ہیں تجھے وہ بھی تو یاد کرتا ہو گا جب کوئی خوشی
وہ کہتا ! کیا رکھا ہے یادوں کے جھروکوں میں تلخیاں ہی تلخیاں ہیں ماضی کے دریچوں میں چلو چھوڑیں نادانیاں عقل سے کام لیں آؤ ! زمانے کا ساتھ دیں ، خوشی کا ہاتھ تھام لیں آؤ ! دکھ کے اندھیروں سے پہلے
میں کہتی کیسا لگتا ہے بعد برسوں کے پھر اک حسیں ملاقات کا منظر وہ کہتا ! دیکھ رہا ہوں اس دنیا میں قبول حرفِ مناجات کا منظر میں کہتی ! کیا اب بھی یاد ہے برسوں پہلے کے اس آخری ملاقات کا منظر وہ کہتا