نظم ۔۔ وہ رت اب نہ آئے گی
کبھی جو لوٹ کے تم آؤ گے جاناں تم کو یاد آئیں گے دن وہ سارے وہ بیتی باتیں وہ لمحے پیارے جب انجانی ، ان دیکھی گلیوں میں دو دل مہک رہے تھے ایک منزل کے بن کے متلاشی انجان راہوں میں بھٹک رہے تھے یونہی
تازہ ترین
کبھی جو لوٹ کے تم آؤ گے جاناں تم کو یاد آئیں گے دن وہ سارے وہ بیتی باتیں وہ لمحے پیارے جب انجانی ، ان دیکھی گلیوں میں دو دل مہک رہے تھے ایک منزل کے بن کے متلاشی انجان راہوں میں بھٹک رہے تھے یونہی
میں اُس سے کہتی ! یوں اپنے سینے پہ میرا سر نہ رکھو میں صدیوں کی جاگی ہوں مجھے نیند آجائیگی وہ بڑے مان سے بازو پھیلاتا مجھے سینے سے لگاتا اور بہت پیار سے سرگوشیوں میں کہتا آؤ ۔۔۔۔۔۔ آؤ میری جاں
میرے مقتل کو جس دن سجایا گیا بے بسی کو سہیلی بنایا گیا ایک شہنائی کی دھن پہ جس روز اک ماتمی گیت مجھ کو سنایا گیا ایسے لمحوں میں نے تڑپتے ہوئے آسماں کو پکارا مدد کے لئے میں نے دیکھا فلک کے ستارے
جب سے تجھ سے دور ہوئے ہم لفظ سے معنی بچھڑ گئے ہیں فصلِ گُل یہ کیسی آئی موسم دل کے اُجڑ گئے ہیں میں کیوں تجھ کو ڈھونڈ رہی ہوں بخت کی ریکھاؤں میں آخر وہ جو شجر تھے چاہت والے ، سب آندھی میں اکھڑ گئے ہیں
ہنستے ہنستے ایک دن سب کو رُلا کر جاؤں گی زندگی تیرے ستم پر مسکرا کر جاؤں گی ریزہ ریزہ کر گئیں مجھ کو تری یادیں مگر ریت کی صورت انہیں میں اب اُڑا کر جاؤں گی خشک پتوں کی طرح سے ہے مری جو زندگی ہجر
ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے نہ دن نکلتا ہے اُس کا ،نہ شام ہوتی ہے اب اِس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے گمان
محبت نے مری ہستی میں خشتِ آستاں رکھ دی جبینِ شوق میں خوئے نیازِ دلبراں رکھ دی متاعِ دین و ایماں ہے ہمارا داغِ پیشانی وہیں پر بن گیا کعبہ جبیں اپنی جہاں رکھ دی ہمارے زخمِ دل دیکھو گلابوں سے حسین
بچھڑ کے اُس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملا ل اب تک خبر نہیں وہ سنبھل چکا ہے یا وہ بھی ہے خستہ حال اب تک مجھے ترا انتظار کیوں ہے؟یہ دل مرا بے قرار کیوں ہے ؟ مرے خیال و نظر میں دیکھو یہی ہے بس اک
وہ کہتا تم ہنستے اچھی لگتی ہو تم ہمیشہ ہنستی رہنا رونے والوں کا کبھی ساتھ نہ دینا کہ رونے والے تو سبھی تنہا ہوتے ہیں میں نے اس کی باتوں اس کے لفظوں کو لوحِ دل پر لکھا زمانے کے ساتھ ہنسنا اور