جو دردِ محبت مجھے معلوم ہے جاناں
جو دردِ محبت مجھے معلوم ہے جاناں بس تیرے حوالے سے ہی موسوم ہے جاناں یہ وصل کے ہر پَل کی مجھے یاد دلائے یہ ہجر کا لمحہ بڑا معصوم ہے جاناں جو نام زمانے نے کھرچ کر تھا مٹایا وہ اب بھی مرے دل پہ ہی
تازہ ترین
جو دردِ محبت مجھے معلوم ہے جاناں بس تیرے حوالے سے ہی موسوم ہے جاناں یہ وصل کے ہر پَل کی مجھے یاد دلائے یہ ہجر کا لمحہ بڑا معصوم ہے جاناں جو نام زمانے نے کھرچ کر تھا مٹایا وہ اب بھی مرے دل پہ ہی
عجب چیز ہے پا کے جو کھو چکی ہوں کچھ اس طرح پاگل بھی اب ہو چکی ہوں جو پلٹا نہیں ہے وہ مصروف ہو گا یہی سوچ کر میں بھی اب سو چکی ہوں محبت کی بنجر زمیں ہے اور اس میں وفا کا ہر اک بیج کیوں بو چکی ہوں
یہ بات کہنی ہے تم سے جاناں جو ہو سکے تو پلٹ کے آنا جو میرے خوابوں کی کرچیاں ہیں وہ آ کے چننا وہ کرچیاں جن میں آج بھی کچھ نشانیاں ہیں شرارتیں ہیں ، اداسیاں ہیں گئے دنوں کی کہانیاں ہیں وہ دن کہ جن
ہمیں جن کے غم اب بھی مارے ہوئے ہیں وہ سمجھے کہیں اور ہارے ہوئے ہیں نہ دیکھا کبھی مُڑ کے پھر عاشقی میں کہاں ،کس طرح،کب خسارے ہوئے ہیں یہ اُجڑا نظر آرہا ہے جو جیون اِسے عشق میں ہم سنوارے ہوئے ہیں
یہ دکھ تخلیق ہوتا جا رہا ہے سفر تاریک ہوتا جا رہا ہے کیا ہے اُس کو اپنے ساتھ شامل یہ دل تفریق ہوتا جا رہا ہے میں خود سے دور ہوتی جا رہی ہوں قفس نزدیک ہوتا جا رہا ہے کسی کو عشق نے عزت عطا کی کہیں
یہ شہر تو گونگا بہرا ہے یہ بہتا ہوا اک دریا ہے یہاں کون مجھے بتلائے گا مرا خواب کہاں پر سویا ہے ؟ اک آس کا دامن تھام کے یہ پیاسا من کہاں پہ رویا ہے ؟ اس شہر میں بسنے والو اب کچھ اپنے لئے ہی سوچو
جب بھی اس کو بھولنا چاہا یاد بہت وہ آیا ہے چاروں جانب دکھ کا موسم اور غموں کا سایہ ہے دشتِ تپاں میں حدِ نظر تک ایک ہی منظر چھایا ہے دھوپ کے شعلے آگ بگولے کون قیامت لایا ہے شہرِ نگاراں، محفل یاراں
جب چھوٹے تھے ہم ماں ہم کو پیسے دیتی اور کہتی تھی جاؤ فلاں دوکان سے جا کر چیزیں لاؤ ہم معصومیت سے ماں سے سوال کرتے ماں کیا پیسوں سے ہر شے مل جاتی ہے ماں مسکرا دیتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ایسے ہی
رگوں میں درد کے نشتر اُترنے والے ہیں جو ز خم دل کے ہیں اب یوں سنورنے والے ہیں ہوا کے دوش پہ جمتے نہیں قدم اپنے وفا کے نقش بھی ا ب تو بکھرنے والے ہیں خبر سحر کی نہ ہم کو چراغِ شب کی کوئی کہ اب تو
تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ کچھ سروکار نہیں رونقِ بازار کے ساتھ کتنے انمول ہیں یہ مہر و وفا کے موتی کوئی پرکھو نہ انہیں درہم و دینار کے ساتھ کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش کاش