پھول سے بچھڑی خوشبو


ہے گردشوں میں دیکھئے مری سحر ابھی
غموں کی رات کیسے ہو گی مختصر ابھی ؟

یقیں تو ہے وہ ایک دن ضرور لوٹ آئے گا
مگر کٹھن وفاؤں کی ہے رہگزر ابھی

گو باغباں نے کوششیں تمام کیں مگر
وفا کی شاخ پر نہ آئے گا ثمر ابھی

سبھی کو علم ہے جو میرا حال ہے یہاں
خبر نہیں وہ کس لئے ہے بے خبر ابھی

غزل پیام بن سکے کہ حالِ دل ہو نظم میں
میں آزما رہی ہوں اپنا ہر ہنر ابھی

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
sahar abhi


Facebook Comments