آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار


آئینہ تھا ،میں تھی اور اُس کی نگاہوں کا حصار
اِس رعایا کو ملا یوں بادشاہوں کا حصار

دشت میں زادِ سفر اتنا ہی تھا میرے لئے
اشک تھے اورساتھ تھا بس میری آہوں کا حصار

کیا کریں ہم کو تو بڑھنے ہی نہیں دیتا کہیں
گم شدہ منزل کا اور کچھ الجھی راہوں کا حصار

سانس لینے سے بھی اکثر روک دیتے ہیں ہمیں
جان لیوا ہو چلا ہے خیر خواہوں کا حصار

اس لئے تو کاروانِ دل ابھی بھٹکا نہیں
اک جبینِ عشق ہے اور سجدہ گاہوں کا حصار

خود خدا تاریکیوں میں راہ دکھلائے ہمیں
خود خدا بنتا ہے شاہیں بے گناہوں کا حصار

hisaar

hisaar


Facebook Comments