اور شام ٹھہر گئی

گیت ۔۔ زندگی رک جا ذرا ۔۔۔

زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی پھر کہاں تُو ہے چلی دیکھ وہ اک یاد دل میں موجزن ہے آج بھی آنکھ میں جو خواب تھے اُن کی چبھن ہے آج بھی جانتی ہے سامنے

نظم ۔۔ موسم ہیں بس چار

میرے بھرم کو توڑنے والے جفا کا رشتہ جوڑنے والے میرے دکھوں کو اور غموں کودیکھ کے اپنا رخ مجھ سے یوں موڑنے والے عمرِ رواں نے اس جیون میں موسم چار ہی بس دیکھے ہیں تجھ کو پانا تجھ سے ملنا تجھ سے

نظم ۔۔ یہ عشق بستی بسانے والو

یہ عشق بستی بسانے والو مری جو مانو تو لوٹ جاؤ یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے اے خواب دنیا بسانے والو وفا کے

نظم ۔۔ محبتوں کا یہ طورِ سینا

سنو مسافر یہ دل صحیفہ سہی مگر اس پہ چاہتوں کی کوئی کہانی رقم نہ ہو گی کہ چاہتوں کی ہر اک کہانی اداس آنکھوں سے جھانکتی ہے اداس چہروں پہ ہی رقم ہے سو میری مانو تو دل صحیفے کو گزرے وقتوں کی داستانوں

اور شام ٹھہر گئی ۔۔ امجد اسلام امجد

ایک تو ڈیرہ غازی خان جیسے نسبتاََ دُور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق اُس پر ڈاکٹری جیسے سائنس نژاد مضمون میں تخصیص اور ان دونوں مشکِلات کے باوجود تین عمدہ شعری مجموعوں کی تخلیق ،اپنی جگہ پر