اور شام ٹھہر گئی

محبتوں کا صلہ نہیں ہے

محبتوں کا صلہ نہیں ہے لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے نہیں وہ تصویر پاس میرے سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے بس اِک پیالی ہے میز پر اور وہ منتظر اب مرا

نظم ۔۔ جب دل یہ حقیقت سمجھے گا

اس عشق کی تو منزل ہی نہیں اور وفا تو بس اک قصہ ہے جب دل یہ حقیقت سمجھے گا تب خاک بدن پر اوڑھیں گے یہ اندھیارے اپنے ساتھی جو ہر دم ساتھ نبھاتے ہیں یہ چاند بہت ہرجائی ہے ہم اس سے منہ اب موڑیں گے یہ

نظم ۔۔ یہ عشق بستی بسانے والو

یہ عشق بستی بسانے والو مری جو مانو تو لوٹ جاؤ یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے اے خواب دنیا بسانے والو وفا کے