محبتوں کا صلہ نہیں ہے
محبتوں کا صلہ نہیں ہے لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے نہیں وہ تصویر پاس میرے سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے بس اِک پیالی ہے میز پر اور وہ منتظر اب مرا
تازہ ترین
محبتوں کا صلہ نہیں ہے لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے نہیں وہ تصویر پاس میرے سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے بس اِک پیالی ہے میز پر اور وہ منتظر اب مرا
اے عشق اس قفس سے مجھے اب رہائی دے دیکھوں جدھر مجھے ترا جلوہ دکھائی دے شہر شب فراق کے گہرے سکوت میں اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے یادِ حبیب مجھ کو بھی اب مجھ سے کر جدا مجھ کو ہجوم درد میں
پت جھڑ میں، خزاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں میں زرد فضاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں بھرنے ہیں کئی رنگ مجھے اپنے د یئے میں کیوں تیز ہواؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں نکلی ہوں کسی دُھن میں کسی یادکو لے کر
جو کھو چکے ہیں وہ منظر تلاش کرتی ہوں بکھر گئے ہیں جو پیکر تلاش کرتی ہوں کبھی تلاش جو کرنا ہو اپنا آپ مجھے تو اُ س کی ذات کے اندر تلاش کرتی ہوں بچھڑ گئی ہوں میں اُس سے مگر نہیں بچھڑی جو بند اُس نے
اس عشق کی تو منزل ہی نہیں اور وفا تو بس اک قصہ ہے جب دل یہ حقیقت سمجھے گا تب خاک بدن پر اوڑھیں گے یہ اندھیارے اپنے ساتھی جو ہر دم ساتھ نبھاتے ہیں یہ چاند بہت ہرجائی ہے ہم اس سے منہ اب موڑیں گے یہ
رت جگے ، آنسو ، دعائے بے اثر ہے اور میں عشق لا حاصل ہے ، اک اندھا سفر ہے اور میں چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں یہ دلِ سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں
یہ عشق بستی بسانے والو مری جو مانو تو لوٹ جاؤ یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے اے خواب دنیا بسانے والو وفا کے
منظر تمام آج تک آنکھوں پہ بوجھ ہیں جتنے بھی خواب ہیں مری پلکوں پہ بوجھ ہیں اُترے گا چاند تو مری بھر آئے گی یہ آنکھ تارے فلک سے ٹوٹ کر راتوں پہ بوجھ ہیں سوچوں پہ نقش ہیں وہ جو پَل تھے وصال کے دکھ
یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں بس اُسکی یادوں کی دھوپ ہے اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آبسی ہے مہکتی یادوں کی چاندنی ہے ،میں جس
مجھے جب بھی وہ گلیاں اور وہ رستہ یاد آتا ہے کوئی دھندلا سا منظر ہے جو اجلا یاد آتا ہے فضائے دل پہ طاری ہے بہت ہی حبس کا موسم تری قربت کی خوشبو کا وہ جھونکا یادآتا ہے کہا تم تو جدائی کا وہ منظر